مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ 28 جنوری کو اردن میں قائم امریکی فوجی اڈے پر حملے کے نتیجے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد امریکہ نے عراق اور شام کی خودمختاری کو پامال کرتے ہوئے مختلف مقامات پر حملے کئے۔ صدر جوبائیڈن نے ان حملوں کو اردن میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے حملوں کا جواب قرار دیا تھا۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ شام اور عراق میں 85 مقامات پر حملے کئے گئے ہیں جس میں طویل فاصلے تک مارکرنے والے میزائل استعمال کئے گئے۔
یونیورسٹی آف ساوتھ الباما میں سیاسیات کے استاد پروفیسر نادر انتصار نے عراق اور شام میں گذشتہ دنوں امریکی فوج کے حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دنیا پر اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے یہ اقدامات انجام دے رہا ہے جس سے عالمی سلامتی اور استحکام کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
امریکی حملوں اور خطے کے حالات کے بارے میں مہر نیوز کے ساتھ پروفیسر انتصار کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی حملے غیر موثر ثاب ت ہوئے ہیں؛اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
حملوں میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں امریکہ اور دونوں ممالک کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ ہمیں اتنا معلوم ہے کہ امریکہ نے کئی دن پہلے حملے کا اعلان کردیا تھا لہذا عین ممکن ہے کہ فریق ثانی نے اپنی تنصیبات کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا ہو۔ امریکہ سمیت کئی ممالک کے دفاعی مبصرین امریکی حملوں کو ناکام اور غیر موثر قرار دے رہے ہیں۔
دنیا پر امریکی راج کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ مبصرین کے مطابق دنیا پر امریکی اجارہ داری خطرے میں ہے آپ کا بھی یہی خیال ہے؟
اس وقت امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور ہے البتہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ کسی حریف کے بغیر دنیا پر راج کرنے کے لئے کئی خطوں پر امریکی بالادستی ضروری ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ کئی بلاکس ابھررہے ہیں جو امریکی اقتصادی طاقت کے لئے چیلنج ثابت ہورہے ہیں۔
جدید دفاعی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے علاوہ خطیر دفاعی بجٹ کی وجہ سے دفاعی میدان میں امریکہ کا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی جارحانہ دفاعی پالیسی کی وجہ سے امریکی ماہرین پریشان ہیں۔ واشنگٹن حکام اب بھی ہر قیمت پر دنیا پر اپنی فوجی برتری قائم رکھنے کے خواہشمند ہیں جس کے عالمی امن اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عراق اور شام پر حالیہ حملے امریکی برتری کو برقرار رکھنے کی ناکام کوشش تھی؛ کیا یہ حملے رائے عامہ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکی فوجی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ فتح حاصل ہونے تک بمباری کرو۔ حالیہ دہائیوں میں کئی مرتبہ اس نظریے کا بطلان ثابت ہوچکا ہے۔ ویت نام میں امریکی فوج نے رولنگ تھنڈر کے نام سے طویل عرصے تک فضائی بمباری جاری رکھی لیکن تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ان حملوں کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔
جنگی مقاصد کے لئے فضائی حملوں کے غیر موثر ہونے پر کئی مرتبہ تحقیقات ہوچکی ہیں جن سے یہی نتیجہ ملا ہے لیکن اس کے باوجود جوبائیڈن انتظامیہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے حملوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ اس وقت امریکہ اندرونی بحرانوں کا شکار ہے، معاشی اور سماجی بحران نے امریکہ کو گھیرلیا ہے لہذا بیرونی تنازعات پر توجہ مرکوز کرنا اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکانا سوالیہ نشان ہے۔ امریکی عوام کا بڑا طبقہ واشنگٹن کی بالادستی کو عالمی امن کے لئے استعمال کرنے کا خواہشمند ہے۔
آپ کا تبصرہ