مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، اسلامی جمہوری ایران کی پارلیمنٹ کے سربراہ محمد باقر قالیباف نے 13 آبان کے موقع پر کہا کہ امریکی صدر کو معلوم ہونا چاہئے کہ آج ایرانی قوم کے نزدیک سب سے زیادہ منفور شخص جو بائیڈن ہے۔ ہماری مشکلات کی اصلی وجہ امریکہ اور اسرائیل ہیں حقیقت میں اسرائیل بھی امریکہ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا 1979 میں طلباء نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرلیا۔ امام خمینی کے مطابق اس اہمیت انقلاب سے زیادہ تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت خفیہ راز انکشاف ہوئے تھے۔
انہوں نے مقاومت کے بارے میں کہا کہ اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ایران میں اہل بیت کی تعلیمات کے مطابق استعمار کے خلاف مقاومت شروع ہوئی۔ استکبار کامقابلہ ایران سمیت دنیا کے ہر حریت پسند کا مشن ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ہمیشہ دنیا کے مستضعفین کے حقوق غصب کرتے رہے ہیں۔
قالیباف نے مزید کہا کہ امریکہ نے ہمیشہ ہمارے قومی مفادات، ترقی اور آزادی کے خلاف شازش کی ہے۔ امریکی ہمیں ترقی کی طاقت سے روکنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے خطے کی تازہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طوفان الاقصی آپریشن مزاحمت کی عملی مثال تھی جس سے تاریخ بدل گئی۔ میں صاف کہتا ہوں کہ آج ہر کوئی ایک نئے ورلڈ آرڈر کی بات کر رہا ہے اور الاقصی طوفان نے عالمی اور علاقائی سطح پر اس ورلڈ آرڈر کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
پارلیمنٹ کے سپیکر نے مزید کہا کہ سید حسن نصر اللہ نے کل رات کہا کہ میں اب اکیلا نہیں رہا جو کہتا ہے کہ صیہونی حکومت مکڑی کا جالا ہے، آج پوری دنیا اس حقیقت کو سمجھ چکی ہے۔ آج ایسے ہی بموں سے بچے، عورتیں اور بچے شہید ہو رہے ہیں۔ کیا یہ طاقت ہے؟ یہ حرکتیں ذلت اور بے بسی کی انتہا ہیں۔ صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے طاقت کا یہ توازن نہیں بدلے گا اور رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق یہ شکست کبھی بھی قابل تلافی نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو جان لیں کہ وہ ان واقعات کا شکار ہوں گے اور مصائب اور ذلت کا شکار ہوں گے اور ہم سب یہ دیکھیں گے۔ ہم واضح طور پر ان تمام جرائم کا اصل مجرم مجرم امریکہ کو سمجھتے ہیں اور یہ تمام جرائم امریکہ کے حکم اور حمایت سے ہوتے ہیں۔ ہم الاقصی طوفان آپریشن کے بعد تل ابیب کے اپنے پہلے دورے کے دوران امریکی صدر کے بدنیتی پر مبنی الفاظ کو نہیں بھولیں گے۔ جب دونوں شیطانوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا تو اس نے کہا کہ اگر آج تک اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو ہمیں یہاں اسرائیل کی ریاست بناناپڑتی۔
آپ کا تبصرہ