مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے بیروت کے جنوبی مضافات میں عاشورائے حسینی کی مجلس کے دوران حسینی عزاداروں کے درمیان مکتب امام حسین (ع) میں ایثار و قربانی کے ناقابل فراموش اسباق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لبنان اور دنیا کے موجودہ تنازعات کا ایک بڑا حصہ طاقت اور قیادت کے حوالے سے طاقتوروں کے درمیان موجود تنازعات سے متعلق ہے۔
المنار نیوز ویب سائٹ نے جمعرات کی شام کو خبر دی ہے کہ سید حسن نصر اللہ نے مجلس حسینی کے اجتماع میں تاسوعا اور عاشورا حسینی کے واقعات سے درس لینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں بہت سی لڑائیاں اس بہانے لڑی گئیں۔ یہ تنازعات غنیمت، توانائی، تیل، مارکیٹ اور توانائی کے تسلط کے حصول پر رونما ہوئے ہیں اور یہ کبھی بھی انصاف کے فروغ اور لوگوں میں مساوات قائم کرنے کی سمت میں نہیں ہوئے۔
حسن نصراللہ نے پوری تاریخ میں جنگی جنون کے پس پردہ عوامل کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ سیاسی، مالی اور اقتصادی اشرافیہ ہمیشہ اپنے دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے پوری تاریخ میں جنگ افروزی کے پیچھے رہی ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مکتب امام حسین علیہ السلام کی پیروی میں لبنانی شہداء کے اہل خانہ کے صبر و استقامت کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم نے ہمیشہ شہداء کے خاندانوں کے استقامت، قربانی اور صبر کا مشاہدہ کیا ہے۔ دشمنوں کے خلاف ان تمام چیلنجز اور مسائل کا مشاہدہ کیا۔ راہ مزاحمت میں مقدار اور معیار کے لحاظ سے بہت سے بابرکت کاموں کا اضافہ ہوا ہے۔
حسن نصراللہ نے واقعہ عاشورا میں توابین کے کردار کے بارے میں رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ توابین نے ایک نامناسب وقت پر خروج کیا جب کہ انہیں امام حسین (ع) کے ساتھ قیام کرنا چاہئے تھا، ان کے بعد نہیں۔ اگر توابین امام حسین (ع) کا ساتھ دینے کے لئے خروج کرتے اور کربلا میں آکر امام سے مل جاتے تو امام جیت چکے ہوتے۔
حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ اگر آج امام حسین (ع) مدد چاہتے تو مجاہد مرد اور عورت دونوں انہیں تنہا نہ چھوڑتے۔ لوگوں کو اپنے اندر جذبہ ایمانی اور جہاد کو برقرار رکھنا چاہئے۔ سید مقاومت نے اپنے خطاب میں امام حسین علیہ السلام کے مکتب سے متاثر لبنانی مزاحمت پر ایمان اور ایثار کی زندہ لہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خطے میں مزاحمت کی لہر زندہ ہے اور ہم جارح قوتوں کے خلاف جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں۔
آپ کا تبصرہ