27 جولائی، 2023، 1:04 PM

امریکی انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن کی غاصب صیہونی حکومت پر پابندی

امریکی انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن کی غاصب صیہونی حکومت پر پابندی

امریکا کی انسانی شناسی انجمن نے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں غاصب صیہونی حکومت کے اداروں اور یونیورسٹیوں کے کردار پر جعلی صیہونی حکومت کے تعلیمی اور علمی اداروں کا بائیکاٹ کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکن انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن نے صیہونی حکومت کے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس حکومت کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات منقطع کردیئے ہیں۔

اس فیصلے کی وجہ فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک میں صیہونی حکومت کے اداروں اور یونیورسٹیوں کا کردار ہے اور اسے "بائیکاٹ اینڈ ڈیویسٹمنٹ آف اسرائیل" (BDS) تحریک کی حمایت میں ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکی انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن کی صدر رامونا پیئرز نے اس قرارداد کے حوالے سے کہا کہ یہ فیصلہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا، اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم مل کر سائنسی علم کو مضبوط کریں، انسانی اور سماجی مسائل کا حل تلاش کریں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایکشن لیں۔ 

یہ ووٹنگ، جو 15 جون سے 14 جولائی کے درمیان الیکٹرانک طریقے سے کی گئی تھی جو کہ صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کے لیے فیصلہ کن ووٹنگ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اعلان کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس ووٹنگ میں 71% شرکاء نے صیہونی حکومت پر پابندیوں کے حق میں اور 29% نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 

امریکی اینتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن 1902 میں قائم ہوئی تھی اور اس ایسوسی ایشن کے صرف ممبران کو ہی اس ووٹ میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے جو ثقافتی، حیاتیاتی، لسانی، طبی اور عملی بشریات کے ماہر ہوں۔

دوسری جانب "بائیکاٹ اسرائیل تحریک" کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ یہ ووٹنگ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں اسرائیلی تعلیمی اداروں کے امتیازی سلوک، منصوبہ بند نسل پرستانہ کردار اور بستیوں کی تعمیر کے ذریعے بدترین اپارتھائیڈ کے ارتکاپ پر کی گئی ہے۔

مذکورہ تحریک کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس تاریخی اقدام کے ساتھ امریکن انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن جس کے اراکین کی تعداد 12,000 سے زیادہ ماہرین تعلیم تک پہنچتی ہے، سب سے بڑی امریکی انجمن بن گئی جس نے اسرائیلی یونیورسٹیوں کے بائیکاٹ کی منظوری دی ہے۔ وہ یونیورسٹیاں جو فلسطینیوں کو مارنے، زخمی کرنے اور دھمکانے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیاروں اور فوجی نظام کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں اور فلسطینی عوام پر ظلم کرنے والے اسرائیلی نظام کے تمام پہلوؤں میں ملوث ہیں۔

اس فلسطینی حامی تحریک نے انتھروپولوجی ایسوسی ایشن (AnthroBoycott) اور اس کے اراکین کے بائیکاٹ کے اقدام کو سراہتے ہوئے اسے ایسوسی ایشن کے اقدام کو اعلان کردہ اصولوں کے ساتھ  وابستگی کی ضمانت دینے کے اقدام کے طور پر سمجھا، جن میں سرفہرست سماجی انصاف، مساوات اور نسل پرستی کے خلاف جنگ ہے جسے اس سمت میں ایک اہم قدم کے طور پر یاد کیا۔ ایک ایسا اقدام جس نے فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

ادھر امریکا کی شمال مغربی یونیورسٹی میں سماجی اور ثقافتی کاموں کی اسکالر جیسیکا ونگر نے مڈل ایسٹ آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد اسرائیل کی نسلی امتیاز کی پالیسیوں اور اس کی ظالمانہ فوجی حکمرانی کے خلاف فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا ایک بامعنی مظاہرہ تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس میدان میں سائنسدانوں کے طور پر ہمارے پاس استعمار پر تحقیق کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بشریات کے پاس اسرائیل کی طرف سے فلسطینی زمینوں پر ظلم اور لوٹ مار کے پریشان کن اور تباہ کن اثرات کے بارے میں وسیع ریکارڈ ہے۔ 

یہ ووٹ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت ظاہر کرنے کے لیے ایک اہم قدم تھا اور یہ انسانی حقوق پر یقین کے حوالے سے انسانی حقوق کی سوسائٹی کی اقدار کی سطح پر اہم قدم ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گورننگ گروپ کے تعلیمی اداروں کے مکمل بائیکاٹ کی حمایت کی گئی ہے۔

امریکن اینتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن کی اسرائیل پر پابندیوں کی قرارداد کی تفصیلات

امریکن انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن کے بیان کے مطابق یہ انجمن صیہونی تعلیمی اور علمی اداروں کے ساتھ سرکاری تعاون سے باز رہے گی اور اس پابندی میں صیہونی حکومت کی علمی اور تعلیمی میدان کے بہت سے شعبے شامل ہوں گے۔

اس بنا پر اس انجمن کی طرف سے شائع ہونے والے مواد میں صہیونی تعلیمی اور علمی اداروں کی موجودگی، ان مواد میں ان کی ترویج، مشترکہ کانفرنسوں میں صہیونی اداروں کی شرکت اور ان مواد کو استعمال کرتے ہوئے رسائل میں صہیونی اداروں کے مضامین کی اشاعت پر ایسو سی ایشن کی طرف سے پابندی لگائی جائے گی۔

اس اقدام کے ذریعے مسئلہ فلسطین سے متعلق مسائل کے لیے تعلیمی اداروں پر دباو ڈالا جائے گا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ گزشتہ جون میں امریکی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تحقیقی، سائنسی یا تکنیکی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے اثاثوں کی تقسیم کو معطل کر دیا تھا۔

یہ اس صورت حال کے باوجود ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے 1967 کے بعد پہلی بار مقبوضہ مغربی کنارے کی صہیونی بستیوں میں سائنسی اور تکنیکی منصوبوں کی مالی معاونت کا لائسنس جاری کیا اور اسی وجہ سے 2020 کے اواخر میں صیہونی حکومت کے بہت سے حامیوں کی طرف سے اس کی تعریف اور خیرمقدم کیا گیا۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ کی قرارداد ٹرمپ انتظامیہ کی قراردادوں کے بالکل خلاف منظور کی گئی ہے۔

News ID 1918057

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha