مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج ایرانی وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام اور ایران کی جانب سے دوسرے ملکوں میں تعینات سفیروں نے رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی ہے۔
رہبر انقلابِ اسلامی نے فرمایا کہ بین الاقوامی معاملات میں حکمت عملی اور تدبیر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی عزت و سربلندی، آبرو مندانہ خارجہ پالیسی میں مضمر ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ بعض اوقات خارجہ پالیسی میں مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور مصلحت کا مطلب ہے کہ کہاں نرمی اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے اور نرمی کا مطلب، اپنا راستہ ترک کرنا یا ذلت کو قبول کرنا ہرگز نہیں ہے اور نرمی اصولوں کے منافی عمل نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے ایک اچھی خارجہ پالیسی اور مؤثر سفارتی کاری کو ملکی کامیاب انتظامی امور کا بنیادی ستون قرار دیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق 6 ضروری اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان ضروری اصولوں کی رعایت ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت ہے اور اگر ان اصولوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہمیں خارجہ پالیسی کے نظریے یا سفارت کاری کے امور پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔
رہبرِ انقلاب نے مختلف مسائل میں ملک کے نقطۂ نظر کی منطق کو اجراء کرنے کی صلاحیت کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی کے پہلے اصول کے طور پر بیان کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کے ادارے کے ذمہ داروں کو عالمی نظام میں گہرے اثرات والے تغیرات اور تدریجی طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر دائمی نظر رکھنے کی تاکید کی۔ آپ کا کہنا تھا کہ آئندہ ورلڈ آرڈر میں وطن عزیز کو اس کے شایان شان مقام پر پہنچانے کے لئے یہ ضروری ہے۔
انہوں نے اچھی خارجہ پالیسی اور کارآمد سفارتی ادارے کو ملکی نظام چلانے میں کلیدی حیثیت کا مالک قرار دیا اور خارجہ پالیسی کے چھے اہم ضوابط بیان کئے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ان پیمانوں کی پاسداری کامیاب خارجہ پالیسی کی نشانی ہے اور اگر یہ ضوابط نظر نہ آئیں تو ہم خارجہ پالیسی کے نظرئے یا کارکردي اور سفارتی عمل میں مشکلات سے دوچار ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ کامیاب خارجہ پالیسی کا پہلا ضابطہ ہے گوناگوں مسائل میں ملک کے رجحان کی قائل کر دینے والے انداز میں تشریح اور بیان۔
آپ نے مزید ضوابط گنواتے ہوئے کہا کہ دنیا کے گوناگوں سیاسی و اقتصادی معاملات، واقعات اور رجحانات میں موثر اور سمت دینے والی موجودگی، ایران کے خلاف خطر آمیز پالیسیوں اور فیصلوں کو رفع اور کم کرنا، خطرہ پیدا کرنے والے مراکز کو کمزور کرنا، ایران کی ہمراہی کرنے والی حکومتوں اور اتحادی آرگنائیزیشنوں کی تقویت اور ملک کی اسٹریٹیجک گہرائی کی توسیع، علاقائی و عالمی فیصلوں اور اقدامات کی پوشیدہ پرتوں کے ادراک کی صلاحیت کامیاب خارجہ پالسیی کے ضوابط ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کے تین اہم کیورڈز کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ عزت و وقار کا مطلب الفاظ اور مضمون میں خوشامدانہ ڈپلومیسی کی نفی کرنا اور دیگر ممالک کے عہدیداروں کی باتوں اور فیصلوں سے آس لگانے سے پرہیز کرنا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ ہمیں اصولوں پر تکیہ کرتے ہوئے پروقار انداز میں آگے بڑھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حکمت کی تشریح کرتے ہوئے نپے تلے خردمندانہ بیان اور اقدام کا ذکر کیا اور کہا کہ خارجہ پالیسی میں ہر اقدام بھرپو تدبر اور سوجھ بوچھ کے ساتھ انجام پانا چاہئے۔
آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق مصلحت کا مطلب سخت موانع کو عبور کرنے کے لئے ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آنا ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ اصولوں کی پابندی اور مصلحت کے مطابق عمل کرنے میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ مصلحت کا مطلب رکاوٹ آ جانے پر کوئی الگ راستہ تلاش کرکے اپنے سفر کو جاری رکھنا اور منزل کی طرف پیش قدمی کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں متعدد ملکوں کے ساتھ جن میں بعض بہت اہم اور با اثر ممالک شامل ہیں، ایران کی مشترکہ سرحدوں کا ذکر کیا اور ہمسایہ ممالک سے روابط بڑھانے کی موجودہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک سے ایران کے تعلقات خراب کرنے کے لئے اغیار سرگرم ہیں، ان کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں اسلامی ممالک سے روابط خواہ وہ فاصلے پر واقع ہوں، اسی طرح ہم خیال ملکوں سے رشتے بہت اہمیت کے حامل ہیں، انہوں نے کہا کہ آج بعض معاملات اور بین الاقوامی سیاست کے بنیادی خطوط کے تعلق سے کچھ بڑے اور اہم ملکوں کا اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ آنا بہت اہم موقع ہے جس کی قدر کرنا اور ان ملکوں سے روابط کو فروغ دینا چاہئے۔
انہوں نے سفیروں اور سفارت کاروں کی کانفرنس کے موضوع یعنی موجودہ عالمی نظام میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی بحثوں میں یہ موضوع بار بار دہرایا جانے لگا ہے۔ آپ نے کہا کہ ورلڈ آرڈر کی تبدیلی نشیب و فراز والا ایک طولانی عمل ہے جس پر بہت سے ممکنہ واقعات کا گہرا اثر پڑ سکتا ہے اور الگ الگ ممالک اس کے بارے میں الگ الگ نظریہ اور رجحان رکھتے ہیں۔
اس ملاقات کے آغاز میں وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے خارجہ پالیسی کے ادارے کی موجودہ ترجیحات، پروگراموں اور اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
آپ کا تبصرہ