مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ادھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متاثرین کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور دوسری جانب آئے روز عالمی میڈیا میں مغربی ملکوں کے انسانیت سوز رویے کے بارے میں افسوسناک اور مایوس کن خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ترکیہ اور شام کے زلزلہ زدگان کے ساتھ یورپ اور امریکہ کا امتیازی سلوک مختلف ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں تھا جس کا ذکر ہر ایک نے ’’ایک چھت اور دو ہوا‘‘ اور مغربی انسانی حقوق کے ’’دوہرے معیار‘‘ کے عنوان سے کیا۔
زلزلے کے ابتدائی دنوں میں ہی دنیا کے 65 ممالک بالخصوص نیٹو کے ارکان اور مغربی حکومتوں کی جانب سے ترکیہ میں زلزلے کے متاثرین کی امداد اور شام کی اسی صورتحال کے سامنے ان کی معنی خیز خاموشی نے مغرب والوں کے دوہرے معیار اور انسانی حقوق کے دعویداروں کو بے نقاب کیا۔
اس وقت ایران، متحدہ عرب امارات، روس اور بھارت سے انسانی امداد لے جانے والے صرف 4 طیارے شام بھیجے گئے تھے، اس کے ساتھ عراق سے بھی کئی طیاروں کا اضافہ ہوا تھا اور بعد میں افغانستان، چین، الجزائر، تیونس، پاکستان بھی شامل ہوگئے۔ مجموعی طور پر شام کے زلزلہ متاثرین کی مدد کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
اسی سلسلے میں تجزیاتی جریدے "مڈل ایسٹ آئی" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: مغربی ممالک روس کے ساتھ جنگ میں یوکرین کے لیے دسیوں ارب ڈالر کے ہتھیار مختص کرتے ہیں۔ تاہم، یہی حکومتیں تباہ کن زلزلے کا سامنا کرنے والے شامی عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنے سے انکار کرتے ہیں اور اس سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض اوقات وہ امداد کو اس ملک کے لوگوں تک پہنچنے سے روک کر باقاعدہ رکاوٹ بنتے ہیں!
شام پر عائد پابندیاں شامی عوام تک انسانی امداد پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگرچہ یورپ اور امریکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خوراک، طبی اور دواسازی کی امداد پابندیوں کے دائرے سے باہر ہے، لیکن عملی طور پر پابندیاں شام جیسے پابندی والے ملک کو انسان دوستانہ امداد کی ترسیل میں شدید رکاوٹ ہیں۔
برطانیہ اور انسانی حقوق کی پائمالی
ترکیہ اور شام میں موسم سرما میں زلزلہ آیا جس کی وجہ سے موسم کی صورتحال کا خیال رکھے بغیر زخمیوں کو بچانا ممکن نہیں اور ٹھنڈ کا خطرہ بدستور ان لوگوں کو لاحق ہے جو موت کے چنگل سے بچ کر بے گھر ہو گئے ہیں۔
لیکن برطانوی امداد کے حوالے سے وائرل ہونے والی تصاویر نے مغرب کے اصلی چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔
اس لیے ظاہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ترکیہ اور شام میں زلزلہ متاثرین شدید سردی اور اپنے گھروں کی تباہی کی وجہ سے مشکل حالات سے دوچار ہیں، ان کی سب سے اہم درخواست گرم کپڑوں اور دیگر ضروری سامان کی ہے، لیکن برطانوی امداد کے حوالے سے وائرل ہونے والی تصاویر نے مغرب کے اصلی چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔
ان تصویروں میں بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑے، اونچی ایڑی کے جوتے، استعمال شدہ زیر جامہ، ہوٹل کی ڈسپوزایبل چپلیں، وگ اور استعمال شدہ کاسمیٹکس اس حد تک نظر آئے کہ لبنانی چینل "المیادین" کی ویب سائٹ نے ان میں سے کچھ تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ شام اور ترکیہ کے زلزلہ زدگان کے لیے برطانوی امداد میں 20 فیصد ایسا استعمال شدہ سامان اور کپڑے شامل ہیں جو استعمال کے قابل نہیں۔ اس مسئلے نے ایسی امداد کے بارے میں عوام میں غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔
اسی طرح کا ڈرامہ اور اوچھی حرکت اس بار ایران کے ساتھ
مغرب کا انسانیت سوز اقدام کوئی نئی بات نہیں ہے
چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سخت ترین پابندیوں اور مشکلات کے شکار ایران کے لیے مغرب کا انسانیت سوز اقدام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب 2012 میں 6.4 شدت کے زلزلے نے مشرقی آذربائیجان میں اہر اور ورزقان کو تباہ کر دیا اور 300 سے زیادہ گھرانے متاثر ہوئے۔
اس وقت امریکی حکومت نے ہمیشہ کی طرح دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں جاری رکھنے کے عزم پر زور دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران میں زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے 45 دنوں کے لیے غیر سرکاری امداد کی اجازت دے گی اور یہ وہی کام تھا جو اس نے آج شام میں کیا ہے اور شام کے لیے پابندیوں سے 180 دن کا استثنیٰ حاصل ہونے کا بظاہر اعلان کیا۔
مزید برآں امریکی محکمہ خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں این جی اوز کو 31 اگست سے 5 اکتوبر 2012 تک تعمیر نو یا انسان دوستانہ امداد کے طور پر ایران کے لیے مالی امداد بھیجنے کی اجازت ہے۔
پابندیوں اور انسان دوستانہ امداد کے نام پر امریکہ کا ڈرامہ اس وقت بے نقاب ہوا جب اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران میں پابندیوں کے عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات پر بات کی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے پابندیوں کا ایک ناگزیر اثر قرار دیا، یوں انہوں نے محکمہ خزانہ سے ایک مختلف موقف پیش کیا۔ انہوں نے ایران کے شمال مغرب میں زلزلے کے واقعے سے غلط فائدہ اٹھایا اور اس امداد کے بارے میں کہ جسے قبول کرنے کے لیے ابھی تک ایران نے اپنی رضامندی کا اعلان بھی نہیں کیا تھا، بڑے کر و فر کے ساتھ میڈیا پر پروپگینڈا شروع کردیا تاکہ بین الاقوامی سطح پر خود کو بشردوستانہ امور اور انسانی حقوق کے لیے پرعزم ملک کے طور پر پیش کرسکیں۔
پابندیوں اور انسان دوستی کا ڈرامہ کووڈ 19 کی وبائی صورتحال کے دوران بھی بے نقاب ہوا۔ اگرچہ امریکہ اور یورپ نے دعویٰ کیا کہ کورونا سے متعلق دوائیاں پابندیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں تاہم ایران باضابطہ طور پر کرونا سے متعلق دوائیوں اور ویکسین تک رسائی حاصل کرنے سے محروم رہا۔ لیکن منافقانہ پالیسی کے تحت دوسری جانب مغرب ہمیشہ اپنے اعلانات اور میڈیا کی تشہیرات میں خود کو ایرانی عوام کے ساتھ ظاہر کرکے پیش کرتا ہے۔
یہاں تک کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف جو ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی مہم چلائی گئی تھی، اس کا ہدف بھی ایران کے عوام تھے تاکہ اس طرح وہ ناراض عناصر میں بدل جائیں اور مغرب کی مطلوبہ سمت پر چلنا شروع کردیں۔ اس کے علاوہ "ایران کا مغرب کے مطالبات کے سامنے جھکنا"، "تہران کی علاقائی حوالے سے پالیسز کو تبدیل کرنا" اور آخر میں "اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو تبدیل کرنا" وہ تین اہم مقاصد تھے جنہیں حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر کاربند رہے۔
نتیجہ
مغرب نے ترکیہ اور شام کے زلزلے کے معاملے جیسے انتہائی حساس مواقع پر اپنے رویے سے ظاہر کیا ہے کہ وہ ایک ریاکار اور منافق اداکار ہے۔ اپنے باطن سے بڑھ کر دنیا کی رائے عامہ کے سامنے اپنا صاف ستھرا ظاہری روپ دکھاتا ہے۔ یہ ایسے میں ہے کہ جب حقیقت میں وہ ہمیشہ انسانی اور اخلاقی مسائل سے دوہرا معیار بناتے ہیں، اب یہ مسائل زلزلہ زدگان کی مدد اور دہشت گردی یا آزادی اظہار اور انسانی حقوق بھی ہو سکتے ہیں۔
یہاں جو چیز اہم ہے وہ معاملے کی ظاہری شکل و صورت اور اہل مغرب کے مفادات ہیں، جنہیں مدنظر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے۔ جب دہشت گردی سے یورپ اور امریکہ کے مفادات حاصل ہو رہے ہوں تو یہ ’’اچھی دہشت گردی‘‘ ہوتی ہے اور جب یہ مغرب کی زیادہ سے زیادہ کی ہوس اور تسلط پسندی کے خلاف کھڑی ہوتی ہے تو اسے ’’بری دہشت گردی‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا بھی دوہرا مقصد ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی مسلمان اور عرب نمائندہ "الہان عمر" کو صہیونی حکومت پر تنقید کرنے پر ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے نکال دیا گیا، در عین حال امریکہ خود کو آزادی کے ایک غیر متنازعہ حامی کے طور پر پیش کرتا ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے بھی یہی معیار ہے۔مثلاً سعودی عرب میں ایک دن میں 90 افراد کو اجتماعی پھانسی دے دی جاتی ہے تو خاموش نظر آتے ہیں اور یمن میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے المیے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، تاہم ایران جیسے ملک پر لازم ہے کہ بغیر کسی کمی بیشی کے مغرب کے منظور انسانی حقوق کو نافذ کرنے والا بنے، گویا ایران کے لئے ان کا معیار الگ ہے یہاں وہ چاہتے ہیں کہ وہی قانون نافذ ہو جو غرب چاہتا ہے۔
درنتیجہ منافقت اور دوغلا پن یا پھر زیاہ علمی تعبیر کے مطابق یہی دوہرا معیار مغربی حکومتوں کی خارجہ پالیسی کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے جو اس بار شام اور ترکیہ کے زلزلہ زدگان کے معاملے میں سامنے آیا۔ "شام کے زلزلہ متاثرین کو نظر انداز کرنا" ڈومینو اقدام کی پہلی حرکت کے طور پر اور انسانی امداد کی شکل میں "بہروپیہ اور نفرت انگیز امداد" اس ڈومینو کی دوسری حرکت کے طور پر کی گئی ہے۔ اب ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ ڈومینو کا اگلا ٹکڑا کب گرے گا کہ مغرب کے لیے تیسرے اسکینڈل اور تیسری جگ ہنسائی کو رقم کرسکے؟
آپ کا تبصرہ