مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کئی اہم وزراء اور مرکزی بینک کے سربراہ کے سمیت اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ چین کے دورے پر ہیں اور یہ دورہ سرکاری طور پر 20 سال بعد انجام پا رہا ہے۔ یہ دورہ ایران کے لیے خاص طور پر اقتصادی تعلقات کے فروغ میں اچھی پیش رفت کا آغاز ہو سکتا ہے۔
کیا اہم کامیابیاں نزدیک ہیں؟
مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں سینئر ماہر اقتصادیات علی حیدری نے کہا کہ چینی نئے سال کے موقع پر اعلیٰ حکام کے ساتھ صدر مملکت کا دورہ اہم اقتصادی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قوی احتمال ہے کہ اس دورے کا اصلی محور ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹیٹجک تعاون کا معاہدے ہی ہوگا۔اگرچہ اس معاہدے کا اب تک کوئی خاص اقتصادی فائدہ نہیں ہوا ہے لیکن یہ دورہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
حیدری نے مزید کہا کہ اس دورے میں صدر کے ہمراہ وزارت خارجہ کی ٹیم اور اقتصادی گروپ ہے جو اسلامی جمہوریہ کے حکام کے ایران کے خلاف مغرب کی نئے حکمت عملی سے عبور کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ راستہ طویل ہے لیکن اس میں تبدیلی آئی ہے۔ اقتصادی تبادلوں کی نوعیت میں تبدیلی اور یہاں تک کہ سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنے میں چین کے رویے میں تبدیلی اور ایران میں تیل اور گیس کے معاہدوں میں چین کی دوبارہ شمولیت شاید ایرانی اقتصادی ٹیم کے مطالبات میں شامل ہوں۔
اس ماہر اقتصادیات کا کہنا تھا کہ دورے سے اعلی اقتصادی ترقی کی توقع کی جا سکتی ہے یا اقتصادی ترقی کی امید بھی کی جا سکتی ہے لیکن چینی حکومت کی جانب سے ضمانت بھی ضروری ہے کہ چینی حکومت امریکہ کے ساتھ کھربوں ڈالر کے کاروباری لین دین کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کے حصہ کو بھی برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے۔ البتہ کیمرے کے فریم اور مسکراہٹ میں یہ ناممکن نہیں لگتا لیکن عملی طور پر اس کے لیے چینی حکومت کی طرف سے مزید عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔
حیدری نے چین کو تیل کی فروخت کے معاملے کا بھی ذکر کیا اور مزید کہا کہ چین کے ساتھ تیل کی فروخت میں ایران کا حصہ بڑھ جائے گا اگر ایران سعودی عرب سے اپنی کھوئی ہوئی منڈی (تیل کی وہ منڈی جس میں سعودی حکومت ایران کی عدم موجودگی میں قیادت کرتی ہے) دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رئیسی حکومت کے لیے اس دورے میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنا ناممکن نہیں ہے، البتہ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ملک مزید بنیادی اقدامات کریں گے جن میں امریکہ کے علاوہ کسی دوسرے مانیٹری یا فارن کرنسی بینکنگ چینل کا استعمال بھی شامل ہے۔ ڈالر اور اس کا حل یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کلیئرنگ کی مقدار میں اضافہ کیا جائے۔پیسہ یا کلیئرنگ کی صورت میں تیل کی فروخت کی رقم کے لیے رئیسی حکومت کی زیادہ گردش اور پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ تعامل کی ضرورت ہے کیونکہ چین کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون اور پیسوں یا سامان کی منتقلی ایران کے پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ علاقائی تعاون کا متقاضی ہے۔
آخر میں حیدری نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا چینی حکومت ایران کی تیل اور پیٹرو کیمیکل صنعتوں میں تعاون کے لئے واپسی کے لیے تیار ہے یا روسی حکومت ہی بدستور ایران میں اس صنعت میں فعال رہے گی۔ داخلی سطح پر رئیسی حکومت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات میں چین کی واپسی قلیل مدتی طور پر ایرانی معاشرے میں مہنگائی کے حوالے سے جاری چہ مگوئیوں کو کم کر سکتی ہے اور ایرانی معیشت کے لیے عارضی مداوا ثابت ہو سکتی ہے لیکن طویل مدتی حوالے سے یہ دیکھنا ہوگا کہ 25 سالہ معاہدہ اور دیگر اسٹریٹجک اقدامات کو شروع کرنے کے لئے دونوں طرف منصوبوں رکھے جاتے ہیں یا نہیں؟
مرکزی بینک کے سربراہ کا دورہ اور زرمبادلہ کھلنے کا امکان
مرکزی بینک کے گورنر کا صدر مملکت کے ساتھ دورہ ایک خاص پیغام ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم مستقبل قریب میں یا آنے والے ہفتوں میں ڈالر کی قیمت میں توازن دیکھ سکتے ہیں۔ یہ دورہ ایک اور پہلو سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور وہ یہ ہے کہ اس ہفتے کے آخر میں کرنسی اور گولڈ ایکسچینج مارکیٹ کا کھلنا اور اس اہم کام کا اس دورے کے نزدیک انجام پانا ایک خاص خبری اہمیت رکھتا ہے۔
دوطرفہ مالیاتی تبادلے کے لیے ایران اور چین کا عزم
دو طرفہ تبادلے اور کرنسی کی منتقلی کے لیے مالیاتی معاہدوں پر اتفاق پیسے کے معاملے میں ملک کے بنیادی مسائل میں سے ایک، خاص طور پر رقوم کی منتقلی کے مسئلے کو ختم کر سکتا ہے اور عملی طور پر پابندیوں کے بوجھ کو کم کر سکتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ رقم کی منتقلی میں دشواری ہے اور دو طرفہ مالیاتی معاہدہ اس مسئلے کو حل کرسکتا ہے۔
اگلا طریقہ یہ ہے کہ ایران کے زرمبادلہ کے وسائل کو بطور خزانہ استعمال کیا جائے جسے ایک سنجیدہ آپشن سمجھا جا سکتا ہے، ایران کو انفراسٹرکچر کے مسائل میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر مالیات کا استعمال ملک کے کوریڈور کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ہے کہ جس سے ایران بری طرح پیچھے ہے، تیز رفتار ریلوے ٹریک میں توسیع، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب کی جدید معیاروں پر شاہراہوں کی توسیع، فضائی صنعت کی ترقی؛ ملک کے لیے غیر ملکی کرنسی کمانے کا ایک طریقہ راہداری اور ٹرانزٹ کے معاملے پر خصوصی توجہ دینا ہے اور یہ مسئلہ ملک کے مستقبل کے لیے بھی راہیں کھولتا ہے، ایران کے کوریڈور میں چین کی سرمایہ کاری دونوں ملکوں کے لیے بہت سے فائدے رکھتی ہے اور اس شعبے میں زیادہ کرنسی پیدا کرے گی، غالباً صدر کے ہمراہ سڑکوں اور شہری ترقیات کے وزیر بھی اس دورے میں اسی وجہ سے موجود ہیں۔
ایک اور بحث عوام کے روزمرہ کے لین دین سے ڈالر کو ہٹانا اور ڈالر کی بجائے دوسری کرنسیوں کو فراہم کرنا ہے جس میں چینی یوآن بھی شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ ڈالر صرف صنعتوں کے لیے استعمال کیا جائے اور سفری اخراجات کے لیے حاصل کی جانے والی غیر ملکی کرنسی سمیت دیگر کرنسی ضرورتوں کے لیے یوآن پر توجہ دی جائے۔
اگر ایران اور چین کے درمیان تجارتی تبادلے کی ترقی ایران کی خالص تجارت کو بڑھانے کے مقصد سے ہوتی ہے تو اس سے کرنسی کی فراہمی کے مسئلے کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں اچھی دولت بھی آسکتی ہے، ایران مختلف شعبوں میں چین کو برآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک بن سکتا ہے اور کوریڈور اور راہداری کی تعمیر و ترقی ایران کے لیے یہ میدان بھی کرسکتا ہے اور تجارت اور کرنسی کے تبادلے میں اضافے سے دونوں ملک عملی طور پر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کو بے اثر کر سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ