مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رشی سوناک سات ہفتوں پہلے لز ٹرس سے وزارت عظمی کی دوڑ میں ہار گئے تھے، تاہم اب لز ٹرس کے وقت سے پہلے مستعفی ہوجانے کے بعد پارلیمنٹ میں کنزرویٹو ارکان کے درمیان سب سے زیادہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس طرح وہ حکمران پارٹی کے سربراہ بن گئے ہیں اور برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے۔
رشی سوناک ایسے حالات میں برطانیہ کے ستاون ویں وزیر اعظم کے طور پر اپنے کام کا آغاز کریں گے کہ جب چار مہینے سے بھی کم مدت میں ملک کے دو وزرائے اعظم بورس جانسن اور لز ٹرس نے حکمران پارٹی کی صدارت سے استعفی دے کر وزارت عظمی کی کرسی خالی کی ہے۔
رشی برطانیہ کے وہ پہلے وزیر اعظم بن گئے ہیں کہ جو سیاہ فام اور غیر برطانوی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہندوستان کا ایک تارک وطن
رشی سوناک کنزرویٹو پارٹی میں نئے شامل ہونے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 2010 میں ایک کنزرویٹو رکن کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور ٹریزا مے کی حکومت میں چھوٹے عہدوں پر کام کیا۔ اس کے بعد 2020 میں بورس جانسن کی حکومت میں وزیر خزانہ بنے۔ رشی سوناک 1980 میں برطانیہ کے جنوب میں واقع ساؤتھمپٹن شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک ڈاکٹر اور والدہ ایک فارماسسٹ تھیں۔ یہ دونوں ہندوستانی نژاد لیکن مشرقی افریقہ میں پیدا ہوئے اور 1960 کی دہائی میں کینیا اور تنزانیہ سے ہجرت کر کے برطانیہ آگئے تھے۔
خاندان کی اچھی مالی حالت کی وجہ سے سوناک مستند یونیورسٹی آکسفورڈ میں داخل ہونے کے قابل ہوئے۔ اپنی زندگی کے دوران وہ سیاست سے دور رہے اور فنانس اور کاروبار میں مصروف رہے اور دنیا کے بڑے بینکنگ اداروں کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ رشی سوناک کو برطانیہ کے امیر ترین سیاست دانوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ ان کی اہلیہ اکشتا مورتی کی دولت ہے جو کہ برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان کی دولت کے حوالے سے کافی بحث ہوتی رہی ہے خاص طور پر جب یہ انکشاف ہوا کہ اس کی کمپنیاں ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔
عام حالات میں سوناک بورس جانسن کی جانشینی اور اپنے گزشتہ 40 سالوں کے بدترین معاشی حالات میں پھنسے ہوئے برطانیہ کی باگ ڈور تھامنے کے لیے ایک اچھا انتخاب تھا کیونکہ انھوں نے کورونا کے پھیلاو سے نمٹنے کے دوران ثابت کیا تھا کیا کہ ایک قابل منتظم اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ تاہم کنزرویٹو پارٹی کا اپنا حساب و کتاب تھا اور اس نے رشی سنک پر لز ٹرس کو ترجیح دی۔ اس انتخاب کے جواب میں سوناک خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے لیکن اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ لز ٹرس اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
تارکین وطن کے لیے سخت پالیسی
ہندوستانی نژاد سیاست دان نے ہمیشہ ہر ایسی قانون سازی کی حمایت کی ہے جس سے برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی آئے اور وہ پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے بارے میں بھی سخت موقف اپناتے رہے ہیں۔
جس دور میں ان کے پاس وزارت عظمی کے بعد سب سے اہم وزارت یعنی وزارت خزانہ کا قلمدان تھا اس دوران انہوں نے سمندری راستے سے مہاجرین کے داخلے کو روکنے کے لیے انجام پانے والی کوششوں کے لیے ایک بڑی رقم مختص کی۔ سوناک نے متنازعہ امیگریشن قوانین کی کوئی مخالف نہیں کی جیسے کہ سٹیزن شپ اینڈ بارڈرز ایکٹ جو غیر ملکی نژاد شہریوں سے ان کی شہریت چھیننے کی راہ ہموار کرتا ہے یا روانڈا ملک بدری کے منصوبہ جو ابھی تک برطانیہ کی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کا منتظر ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ سوناک کنزرویٹو اور دائیں بازو کے ووٹروں کو جذب کرنے کے لیے امیگریشن پر اپنی پارٹی کی سخت گیر پالیسی کو جاری رکھیں گے تاہم ممکن ہے یہ ان کی حکومت کی ترجیح نہ ہو کیونکہ بدستور اقتصادی معاملات ہی ترجیح رہیں گے۔
آپ کا تبصرہ