مہر خبر رساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: توہین آمیز کتاب شیطانی آیات کے مرتد مصنف سلمان رشدی پر ریاست نیویارک کے چوتکوا انسٹی ٹیوشن میں ایک مشتبہ شخص حملہ کردیا ہے اور گردن اور پیٹ میں چاقو کے پے در پے وار کر کے زخمی کردیا جس کے بعد سلمان رشدی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی استپال منتقل کیا گیا۔
عینی شاہدوں کے مطابق دوران تقریب ایک مرد نے اچانک سلمان رشدی پر حملہ کیا اور اس پر چاقو اور مکوں سے وار کرنے لگا۔ سوشل میڈیا میں زیر گردش فوٹیج میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ موقع پر موجود افراد تیزی سے شاتم رسول سلمان رشدی کی جانب بڑھتے ہیں۔
نیویارک پولیس کی جانب سے اعلان کی گئی تفصیلات کے مطابق حملہ کرنے والے شخص کا نام ہادی مطر ہے جس کی عمر ۲۴ سال جبکہ کلیفورنیا کی پیدائش اور فی الحال نیوجرسی کا ہائشی ہے۔ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کرلیا ہے اور ایف بی آئی کی ٹیم نے حملہ آور کے گھر پر چھاپہ مار کر اپنی تحقیقات کے دائرے کو مزید پھیلا دیا ہے۔
در ایں اثنا عالمی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ ملعون سلمان رشدی اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے جبکہ اس کے گلے، بازو اور پیٹ میں زخم آئے ہیں۔ زخموں کی وجہ سے سلمان رشدی بولنے کی قوت سے محروم ہوچکا ہے جبکہ اس کی کتابوں کے ایجنٹ کے مطابق ایک آنکھ کی بصارت ضائع ہونے کا خدشہ بھی پایا جاتا ہے۔
ناول شیطانی آیات اور قتل کا فتوی
بمبئی کے کشمیری گھرانے میں پیدا ہونے والا بدنام زمانہ مصنف سلمان رشدی ۲۰١٦ تک بھارتی نژاد برطانوی شہری تھا جبکہ ۲۰١٦ کے بعد سے امریکی شہری کے طور پر زندگی گزار رہا تھا۔ سلمان رشدی نے ١۹۸۸ میں اپنا متنازعہ اور توہین آمیز ناول شیطانی آیات لکھا جس پر مسلمانوں کی طرف سے شدید اعتراضات کئے گئے۔ چونکہ اس ناول میں اسلامی مقدسات کی توہین آمیز اور تمسخرانہ انداز میں افسانہ پردازی کی گئی تھی۔ اس ناول میں پیغمبر اکرم (ص)، ازواج مطہرات اور فرشتہٴ وحی حضرت جبرائیل کی کھلی انداز میں توہین کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ملعون سلمان رشدی کے بولنے کی صلاحیت متاثر، ایک آنکھ ضائع ہونے کا امکان
دوسری جانب رہبر کبیر امام خمینی (رہ) نے اس گستاخی پر ملعون سلمان رشدی کی پھانسی اور قتل کا کا حکم صادر کردیا۔ یہ فتوی اس وقت سے ابھی تک اپنی قوت کے ساتھ باقی ہے۔ ۲۰۰۴ میں جب موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے اس فتوی کے متعلق پوچھا گیا تو آپ کا کہنا تھا کہ یہ فتوی ناقابل تبدیل ہے۔ اس کے بعد مختلف افراد اور ذرائع ابلاغ نے اس قسم کے اقدامات کئے اور یہ سلسلہ انہی سالوں سے چلتا آرہا ہے۔
سلمان رشدی کے توہین آمیز اقدام کے بعد ہالینڈ کے فلمساز تھیوڈور وین گوگ نے مختصر دورانیے کی ایک فلم سبمشن ﴿اطاعت یا تسلیم﴾ بنائی جس میں مسلمان عورتوں کے استحصال کی وجہ اسلام کو دکھایا گیا۔ فلم کا اصلی کردار ایک مراکشی لڑکی ہے۔ اسی لئے فلم بنائے جانے پر افریقی ممالک اور خاص طور پر مراکش میں وسیع پیمانے پر شدید اعتراضات شروع ہوگئے۔ در نہات تھیوڈور وین گوگ ۲۰۰۴ میں ایک ۲۷ سالہ مراکشی نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔
جیسا کہ کہا گیا امام خمینیؒ نے شیطانی آیات کی توہین آمیز تحریریں اور اس پر مسلمانوں کے وسیع پیمان پراعتراضات کے سامنے آنے پر١۴ فروری ١۹۸۹ ﴿۷ رجب ١۴۰۹ ہجری﴾ کو اس کی موت کا حکم جاری کیا۔ اس حکم میں کہا گیا کہ شیطانی آیات کا مصنف اور اس کے مندرجات سے آگاہ ناشرین موت کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی مسلمان جہاں کہیں بھی ان کو پائے انہیں موت کے گھاٹ اتار دے تا کہ مزید کسی کو مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے کی جراٴت نہ ہو ۔ اس حکم کی بنا پر جو کوئی بھی اس راہ میں مارا جائے گا شہید ہے۔
اسلام دشمنی کے پیچھے مغرب کے پاوں کے نشان
تمام تر اسلام مخالف سرگرمیوں، سلمان رشدی سے لے کر چارلی ایبڈو تک مغرب کی حمایت کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ حمایتیں مختلف شکلوں میں ہوتی رہی ہیں، مرتد اور گستاخ افراد کی سیکورٹی سے لے کر مالی اور تشہیراتی امداد تک سب کچھ اس میں شامل ہے۔
۲۰۰۵ میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیغمبر اکرم (ص) کے اہانت آمیز کارٹون شائع کئے۔ یہ کارٹون بیان کی آزادی کے نام پر ڈنمارک کے نشریات میں چھپے اور تیزی کے ساتھ انٹرنیٹ پر پھیل گئے۔ کارٹون کی اشاعت کے بعد دنیا بھر میں ڈنمارک کے سفارتخانوں پر حملے ہوئے اور جھڑپوں کے دوران بہت سے لوگ مارے گئے۔
ان کارٹون کی بنیاد پر اگلے سال یعنی ۲۰۰٦ میں ہالینڈ کے فلمساز نے ایک ڈاکیومنٹری بنائی جس کا نام فتنہ رکھا۔ ڈاکیومنڑی کا آغاز قرآن کے کچھ صفحات سے ہوتا ہے جس کے شروع میں گستاخانہ کارٹون دکھایا جاتا ہے اور قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت کی توہین کی جاتی ہے۔ فلم کے آخر میں مسلمانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے قرآن سے ان آیات کو پھاڑ کر پھینک دیں اور اسلام کو پھیلنے سے روکیں۔
یہ بھی پڑھیں:سلمان رشدی کے ساتھ جو ہوا، اس کی گستاخی کا نتیجہ ہے، وزیراعلی پنجاب
بعض اسلامی رہنماوں نے اس پر رد عمل کا اظہار کیا اور کچھ اسلامی ممالک نے ڈنمارک کی منصوعات کا بایکاٹ کیا۔ ایران میں بھی اس اقدام کے خلاف مظاہرات ہوئے اور بعض ڈنمارکی کمپنیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ انقلاب کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس سال نوروز کے موقع پر جدید ایرانی سال کو سال پیامبر اعظم (ص) کے نام سے موسوم کیا اور بہت سے شیعہ مراجع تقلید من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی، آیت اللہ نوری ہمدانی اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے اس گستاخاکہ اقدام کی مذمت کی۔
۲۰١۰ میں ١١ ستمبر کے واقعے کی سالگرہ کے موقع پر کچھ افراطی اور شدت پسند امریکیوں نے قرآن مجید کو جلا دیا جس پر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور شدید غم وغصے کی لہر اٹھی۔ اسی سال قرآن سوزی کےمتعلق کئی چھڑپیں ہوئیں۔ اس قرآن سوزی کا اصلی محرک اور اس آگ کا پہلا شعلہ پادری ٹیری جونز کی طرف سے لگایا گیا۔
ایک سال کے بعد یعنی ۲۰١١ میں اسلام دشمن امریکی پادری ٹیری جونز کہ جس نے اس پہلے اپنے چرچ میں قرآن جلایا تھا، ایک فلم (اینوسینس آف مسلمز) بنائی۔ فیل میں پیغمبر اسلام (ص) کی کردار کشی اور توہین کی گئی تھی۔
جنوری ۲۰١۵ میں فراسیسی جریدے چارلی ایبڈو نے ایک مرتبہ پھر پیغمبر اسلام (ص) کے متعلق گستاخانہ خاکے شائعے۔ توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کے بعد پیرس میں جریدے کے دفتر پر حملہ کیا گیا۔ حملے کے دوران ١۷ افراد مارے گئے جس میں ١۲ افراد جریدے کے ملازمین تھے۔ مارے جانے والوں میں توہین آمیز کارٹون بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلمان رشدی جو ایک اعتبار سے دور حاضر میں اس نفرت انگیز مہم کو شروع کرنے والا ہے، نے بھی جریدے کے اس اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ مسلمانوں کو اپنی مورد احترام شخصیات کے توہین آمیز کارٹونز برداشت کرنا ہوں گے۔
اس جیسے اقدامات موجودہ سالوں کے دوران بدستور جاری رہے اور گاہے بگاہے یورپی اور امریکی ملکوں سے اسلام کی توہین اور پیغمبر اکرم (ص)کی کردار کشی اور اہانت پر مبنی خبریں آتی رہی ہیں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے کی بات ہے کہ سویڈن کے شہر مالمو میں کچھ دائیں بازو کے بنیاد پرستوں نے قرآن مجید کی توہین کی اور قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کردیا۔ اسی طرح ایک بنیاد پرست پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے بھی قرآن سوزی کا عمومی اعلان کیا تھا جو کہ موقع پر مسلمانوں کے اعتراض اور احتجاج کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا۔
کلی طور پر اسلام دشمنی کے سلسلہ وار مرحلے کا تسلسل مغربی ممالک کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سلمان رشدی کے معاملے میں بھی حکومت برطانیا نے شیطانی آیات کی اشاعت کا ماحول فراہم کیا اور بھاری اخراجات برداشت کرتے ہوئے اس کی جان کی حفاظت اپنے ذمہ لے تھی۔ تاہم اشاعت کے ابتدائی مہینوں میں اور اس کے توہین آمیز مندرجات پر مسلمانوں کے اعتراضات تیز ہونے پر شاتم رسول سلمان رشدی ایک مہینے میں پندرہ مرتبہ اپنی رہائش تبدیل کرنے پر مجبور ہوا لیکن درنہایت ایک نوجوان کے ہاتھوں شکار ہوگیا۔
اب یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ اگر مغرب آزادی بیان کی حمایت کے نعرے تلے مرتد اور اسلام دشمن افراد کی حمایت کرتا ہے جبکہ یہ لوگ ۲ کھرب مسلمانوں کے عقیدے کی توہین اور ان کے جذبات مجروح کرتے ہیں، تو یہ آزادی بیان ان افراد کے شامل حال کیوں نہیں ہوتی جو ہولوکاسٹ کے متعلق بات کرتے ہیں؟
آپ کا تبصرہ