مہر خبررساں ایجنسی، دفاعی ڈیسک: ایران کو لاحق خطرات اب روایتی جنگ تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی شکل ہائبرڈ، ذہنی اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی جنگ میں بدل چکی ہے۔ اسی بدلتی صورتحال کے پیش نظر ایران کی اعلی فوجی قیادت نے قومی دفاعی حکمت عملی میں جدید ٹیکنالوجی کو مرکزی حیثیت دینا شروع کردیا ہے۔
دفاعی اور سکیورٹی شعبے میں تیز رفتار تکنیکی ترقی کے باعث ایرانی مسلح افواج علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی دفاعی نظام کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اس نئے دفاعی تصور کے تحت مصنوعی ذہانت، بغیر پائلٹ فضائی نظام، لیزر اور کوانٹم ٹیکنالوجی کو اب صرف اضافی سہولت نہیں بلکہ دفاعی طاقت کی اصل بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق اس حکمت عملی کا مقصد بیرونی خطرات کا مؤثر مقابلہ کرنا، پابندیوں کے اثرات کو کم کرنا اور علاقائی و عالمی سطح پر ایران کی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانا ہے۔

مستقبل کی جنگیں اور جدید ٹیکنالوجی کا کردار
اسی تناظر میں مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے 17 دسمبر کو امام حسین یونیورسٹی کے دورے کے دوران کہا کہ جدید اور دفاعی طاقت بڑھانے والی ٹیکنالوجیز میں خود کفالت اب ایک اسٹریٹجک ضرورت بن چکی ہے۔ مستقبل کی جنگوں میں ٹیکنالوجی فیصلہ کن عنصر ہوگی اور اس میدان میں غفلت ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ دفاعی سوچ صرف ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ ایران کی مسلح افواج کے مختلف شعبوں میں یکساں طور پر اپنائی جارہی ہے۔ بری فوج کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل علی جہان شاہی کے مطابق ایران نے مصنوعی ذہانت، کوانٹم ٹیکنالوجی، بغیر پائلٹ نظام اور لیزر صلاحیتوں کے شعبوں میں نمایاں پیش رفت حاصل کرلی ہے اور اب ان میدانوں میں عملی دفاعی طاقت کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ یہ جدید صلاحیتیں ہائبرڈ، ذہنی اور مشترکہ جنگی حکمت عملیوں کا مؤثر جواب ہیں، جنہیں ایرانی حکام کے مطابق امریکہ اور اسرائیل ایران کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

جدید دفاعی ٹیکنالوجی ایک اسٹریٹیجک ضرورت
بحری محاذ پر پاسداران انقلاب کی بحریہ کے کمانڈر ریئر ایڈمرل علیرضا تنگسیری نے مصنوعی ذہانت کو ایران کی بحری طاقت میں بنیادی تبدیلی کا محرک قرار دیا ہے۔ سمندری خطرات سے متعلق ایک قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بغیر پائلٹ سطحی بحری جہاز، ڈرونز، میزائل اور آبدوزیں وہ چار بنیادی پلیٹ فارم ہیں جہاں مصنوعی ذہانت کو شامل کیا جارہا ہے۔ مستقبل کے بحری آپریشنز ذہین اور خودکار نظاموں کے بغیر ممکن نہیں ہوں گے۔
اسی طرح بری فوج کے سربراہ میجر جنرل امیر حاتمی نے جدید دفاعی ٹیکنالوجیز کی ترقی کو ایک ناگزیر اسٹریٹجک ضرورت قرار دیا ہے۔ ریسرچ ویک کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ مسلح افواج ایسی ٹیکنالوجیز کے حصول پر کام کررہی ہیں جو دشمن کو ایران کی تیاری اور طاقت کا واضح پیغام دیں۔ انہوں نے پابندیوں اور محدود وسائل کے باوجود یونیورسٹیوں، سائنسی اداروں اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے ساتھ قریبی تعاون کو اہم قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں پیچھے رہ جانا مستقبل کے میدان جنگ میں کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔
ایران کی اس دفاعی حکمتِ عملی میں فضائی دفاع کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ خاتم الانبیاء فضائی دفاعی ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے فضائی دفاعی صلاحیتوں میں مسلسل بہتری پر زور دیا اور حالیہ پیش رفت کو سائنس دانوں، دفاعی صنعت اور عملی فوجی یونٹوں کے باہمی تعاون کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق جدید نوعیت کے فضائی خطرات کی بروقت نشاندہی، نگرانی اور پیش گوئی کے لیے مربوط نیٹ ورکس کی توسیع ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایرانی فضائی حدود کو بدلتے ہوئے خطرات سے محفوظ بنانا ہے۔

دفاعی خودکفالت میں پابندیوں کا کردار
مجموعی طور پر یہ تمام بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایران کی مسلح افواج کے اندر ایک واضح اور منظم عسکری نظریہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کو معاون عنصر نہیں بلکہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی اصل بنیاد سمجھا جا رہا ہے۔ حالیہ علاقائی پیش رفت اور امریکہ و صہیونی حکومت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ایران نے ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کو ایک اسٹریٹجک برتری میں بدلنے کی کوشش تیز کر دی ہے، جبکہ پابندیوں کو رکاوٹ کے بجائے جدت اور اختراع کا محرک قرار دیا جا رہا ہے۔
بغیر پائلٹ نظام، انٹیلیجنس پلیٹ فارم اور جدید ٹیکنالوجیز اب ایران کے دفاعی ڈھانچے کا بنیادی حصہ بن چکی ہیں، جن کے ذریعے کم لاگت میں علاقائی سلامتی کے معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی محدودیت، بین الاقوامی دباؤ اور عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اس امر کی متقاضی ہے کہ تحقیق اور ترقی کے شعبے میں طویل مدتی سرمایہ کاری اور مسلسل جدت کو ترجیح دی جائے۔
مجموعی طور پر ایرانی فوجی قیادت کی جانب سے دفاعی طاقت پیدا کرنے والی ٹیکنالوجیز پر دیا جانے والا زور اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ مستقبل کی جنگوں میں برتری کا فیصلہ افرادی قوت یا روایتی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ تکنیکی ذہانت، لچک اور ابھرتے خطرات کے مقابلے میں تیز ردعمل کی صلاحیت سے ہوگا۔ابزارک تصویر
آپ کا تبصرہ