مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فیفا کا امن انعام ظاہری طور پر فٹ بال کے ذریعے امن اور اتحاد کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن اس مرتبہ یہ ٹرمپ کی ساکھ بہتر بنانے اور فیفا کو سیاسی سرگرمیوں کا ملوث کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نوبل امن انعام حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد عالمی فٹ بال فیڈریشن نے واشنگٹن ڈی سی کے کینیڈی سینٹر میں ہونے والی 2026 ورلڈ کپ کی قرعہ اندازی کے دوران متنازع فیصلہ کرتے ہوئے پہلی بار فیفا امن انعام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا۔ اس اقدام نے چند ہی گھنٹوں کے اندر دنیا بھر میں تمسخر، غصے اور حیرت کی لہر دوڑا دی۔ یہ انعام نہ اس سے پہلے کبھی موجود تھا اور نہ ہی اس کے قیام کی کوئی پیشگی مثال ملتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نام بھی پہلی بار اسی تقریب میں سامنے آیا۔ اس کے لیے نہ کوئی واضح معیار مقرر کیا گیا تھا، نہ کسی قسم کا انتخابی یا جائزہ جاتی عمل اپنایا گیا تھا، اور بعض سینئر فیفا حکام کے مطابق اسے فیفا کونسل کی پیشگی منظوری یا علم بھی حاصل نہیں تھا۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسے کھیل سے متعلق اعزاز کے بجائے اس بات کی نئی علامت قرار دیا کہ فیفا کس طرح وائٹ ہاؤس کی خدمت میں ایک سیاسی آلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
نامعلوم انعام کی اچانک تخلیق
تقریب کے آغاز میں ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں بڑے انداز میں اعلان کیا گیا کہ فیفا امن انعام ہر سال کسی ایسے شخص کو دیا جائے گا جس نے امن کے میدان میں شاندار کارنامے انجام دیے ہوں۔ چند لمحوں بعد، فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو نے ٹرمپ کو اسٹیج پر بلایا اور جوش و خروش کے ساتھ انہیں ایک تمغہ پیش کیا، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اسے جہاں چاہیں پہن سکتے ہیں۔ انفینٹینو نے ٹرمپ کو پانچ ارب فٹ بال شائقین کا نمائندہ قرار دیا اور کہا کہ امریکی صدر اس اعزاز کے مکمل طور پر مستحق ہیں۔ ٹرمپ مسکراتے ہوئے تمغہ اپنے گلے میں ڈالنے کے بعد اپنی پرانی دعوے دہرائے کہ انہوں نے آٹھ جنگیں ختم کیں اور لاکھوں جانیں بچائیں لیکن بہت سے لوگوں کے لیے سب سے حیران کن بات ٹرمپ کے کمنٹس نہیں، بلکہ یہ تھی کہ ایک ایسا انعام بنایا گیا جس کی کوئی وضاحت، معیار یا انتظامی شفافیت نہیں تھی اور اسے ایک ایسے صدر کو دیا گیا جو امن کے لیے نہیں بلکہ فوجی آپریشنز اور عالمی کشیدگی کے لیے جانا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر غصے اور حیرت لہر
اس واقعے کے بعد دنیا بھر کا ردعمل تقریبا فوری، شدید اور وسیع تھا۔ سوشل میڈیا پر تنقیدی تبصروں کی بھرمار ہو گئی، جہاں صارفین نے اسے سیاسی مزاح، امن کے تصور کے لیے توہین اور سیاسی رشوت قرار دیا۔ بہت سے لوگوں نے لکھا کہ فیفا نے یہ انعام بس ٹرمپ کو خوش رکھنے کے لیے ایجاد کیا، اور کچھ نے اسے بچوں کے لیے لولی پاپ بنانے کے مترادف قرار دیا۔
مشہور میڈیا شخصیات اور بین الاقوامی کارکنوں نے بھی اس انعام کو ٹرمپ کی شبیہ بہتر بنانے کا ایک آلہ قرار دیا اور اسے فیفا کی مکمل سیاسی وابستگی کی ایک اور مثال بتایا۔ ردعمل اتنا شدید تھا کہ چند گھنٹوں میں اس انعام کا نام دنیا بھر میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع بن گیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے اس تنظیم کی منافقت کی مثال قرار دیا جو ہمیشہ دعوی کرتی ہے کہ یہ سیاست سے آزاد ہے۔
فیفا کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی
سالوں تک فیفا نے کھلاڑیوں پر محض اس وجہ سے جرمانہ عائد کیا کہ انہوں نے غزہ کی جنگ کے بارے میں ایک جملہ لکھا یا تنازع کے متاثرین کے لیے ہمدردی ظاہر کی۔ لیکن اب یہی تنظیم ایک ایسے صدر کو امن انعام دے رہی تھی جس نے بحری حملے کیے، ایران کو دھمکیاں دی، غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی، اور جس کی سخت امیگریشن پالیسیاں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بار بار تنقید کا نشانہ بنی ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے اسے دوہرے معیار کی علامت قرار دیا۔ جہاں کھلاڑیوں کو سیاسی اظہار کی معمولی حرکت پر پابندی لگائی جاتی ہے، وہیں فیفا کے اعلی عہدیدار خود اعلی سطح کی سیاست میں ملوث نظر آرہے ہیں۔
ٹرمپ اور انفینٹینو کے سیاسی تعلقات
انفینٹینو اور ٹرمپ کے قریبی تعلقات میڈیا میں سالوں سے زیر بحث رہے ہیں۔ انفینٹینو کا اکثر امریکی سیاسی تقریبات میں موجود رہنا، وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے متعدد ملاقاتیں اور ٹرمپ کو نوبل امن انعام دینے کے خیال کی کھلی حمایت دونوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کا اشارہ دیتی ہیں جو اب اس انعام کے ذریعے مزید واضح ہو گئی ہے۔
فیفا کے بعض اندرونی ذرائع کے مطابق، جب سے ٹرمپ نوبل امن انعام نہ ملنے پر مایوس ہوئے، اس کے متبادل انعام کو متعارف کرانے کے لیے دباؤ بڑھ گیا اور انفینٹینو اس مایوسی کی تلافی کے لیے کوئی راستہ تلاش کر رہے تھے۔ ان کے تعلقات نے حالیہ مہینوں میں مزید توجہ حاصل کی جب کلب ورلڈ کپ کے فائنل کے دوران، ٹرمپ تقریب کے درمیان کھڑے ہوئے اور انفینٹینو نے انہیں ایک اضافی تمغہ یادگاری کے طور پر پیش کیا۔
بین الاقوامی ردعمل اور فیصلے پر تنقید
اس فیصلے کے خلاف ردعمل صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں، محققین اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس انعام کو امیج بہتر کرنے کی کوشش اور امن کے تصور کا غلط استعمال قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے سابق اہلکار نے کہا کہ یہ انعام مکمل طور پر سیاسی اہداف کے تحت متعارف کرایا گیا ہے اور فیفا کے اسرائیل کی مظالم پر خاموش رہنے کے بعد اب ٹرمپ کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے ناکام کوشش ہے۔ تجزیہ کاروں نے زور دیا کہ ٹرمپ کے اقدامات کیریبین میں بحری حملوں سے لے کر ایران کے خلاف جارحیت تک سارے اقدامات امن سے تعلق نہیں رکھتے۔ انہیں منتخب کرنے کا صرف ایک پیغام ہے کہ فیفا اپنے اصول چھوڑ کر امریکی حکومت کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم رکھنے کے لیے تیار ہے۔
فیفا کی غیرجانبداری کے دعوے کی قلعی کھل گئی
فیفا طویل عرصے سے بدعنوانی، رشوت اور ریاستی اثر و رسوخ کے معاملات سے دباؤ میں رہا ہے۔ انفینٹینو کے حالیہ اقدام نے تنظیم کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔ فیفا اب ان بنیادی اصولوں سے بہت دور ہوگیا ہے جن پر اسے قائم کیا گیا تھا، اور ایسا انعام دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فٹ بال بغیر سیاست کے کا نعرہ محض تشہیری دعوی بن چکا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ امن انعام دراصل کسی کی شناخت کے لیے نہیں بلکہ سیاسی تعلقات کو مضبوط کرنے اور واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ 2026 ورلڈ کپ کی میزبانی اور فیفا کے مالی منصوبے براہ راست یا بالواسطہ امریکی حکومت کے تعاون پر منحصر ہیں۔
نتیجہ
فیفا امن انعام حقیقت میں ایسے صدر کی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش تھی جس کا نام امن کے بجائے دھمکیوں اور بین الاقوامی بحرانوں سے جڑا ہے۔ یہ انعام نہ صرف ٹرمپ کی ساکھ بہتر بنانے میں ناکام رہا بلکہ فیفا کو ایک نئے اسکینڈل کے مرکز میں لے آیا۔ ایک ایسا اسکینڈل جو اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ فٹبال کی عالمی تنظیم سیاسی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے آلہ بن سکتی ہے۔ یہ انعام امن کی علامت نہیں بلکہ کھیل کے سیاسی استحصال اور آج کی سیاسی دنیا میں امن کے تصور کی توہین کا باعث بن گیا ہے۔
آپ کا تبصرہ