21 نومبر، 2025، 5:47 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

وائٹ ہاؤس کی نئی بیانیہ سازی، ایران سے مذاکرات کے دعوے اور پس پردہ اہداف

وائٹ ہاؤس کی نئی بیانیہ سازی، ایران سے مذاکرات کے دعوے اور پس پردہ اہداف

ڈونلڈ ٹرمپ اپنی سیاسی ساکھ بچانے اور علاقائی اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لئے ایران کے ساتھ مذاکرات کے جھوٹے دعوے کررہے ہیں جس کی ایران نے تردید کردی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کے وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران ایک بار پھر دعوی کیا کہ ایران مذاکرات کے لیے شدید خواہاں ہے اور واشنگٹن ایک عمل شروع کرچکا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ تہران اور واشنگٹن کے درمیان کوئی مذاکراتی عمل موجود نہیں ہے۔ یہ دعوی محض سفارتی غلط فہمی یا معمولی غلطی نہیں بلکہ ٹرمپ کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد جعلی کامیابیوں کی تخلیق اور حقائق کی تحریف ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں کئی مواقع پر ایسی چال چلی۔ وہ جزیرہ نمائے کوریا میں تاریخی امن یا مشرق وسطی کی جنگوں کو ختم کرنے کے دعوے کرتے رہے، جبکہ حقیقت میں یہ منصوبے جزوی، عارضی اور غیر مؤثر رہے۔ انہوں نے آبراهام معاہدوں کو بھی عظیم تبدیلی کے طور پر پیش کیا، حالانکہ یہ معاہدے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے اور زیادہ تر علامتی حیثیت رکھتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اس بیانیہ سازی کے ذریعے خود کو مضبوط اور گیم پر کنٹرول رکھنے والا دکھانا چاہتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان کی اندرون ملک مقبولیت پہلے دور صدارت کے آخری سالوں میں 47 فیصد سے گر کر تقریباً 38 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ داخلی سطح پر مقبولیت میں یہ کمی انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ بیرونی کامیابیوں کی تصویر پیش کرکے اپنی سیاسی حیثیت برقرار رکھیں۔ یہ حکمت عملی ٹرمپ کی سیاسی فطرت کی عکاسی کرتی ہے، جس میں حقیقت کے بجائے مضبوط، پراثر اور جذباتی بیانیے کی تخلیق کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ اپنے حامیوں کو یہ باور کرایا جاسکے کہ وہ عالمی سطح پر حالات پر قابو رکھتے ہیں اور ان کا سیاسی قد و کاٹھ مضبوط ہے۔

ٹرمپ کی شہرت پسندی اور مصنوعی بیانیہ سازی کی حقیقت

ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت میں یہ چیز بہت نمایاں ہے کہ وہ ہر وقت توجہ کا مرکز بننا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا روزانہ ان کا نام لے، انہیں خبروں کی سرخیوں میں رکھے اور انہیں اہم ترین شخصیت کے طور پر پیش کرے۔ اگر وہ کچھ وقت تک خبروں سے غائب رہیں تو یہ بات ان کے لیے ذہنی بےچینی کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اس وقت بھی کوئی خبر بنا لیتے ہیں جب حقیقت میں کوئی واقعہ ہوتا ہی نہیں۔ کئی بار وہ ایسا کرچکے ہیں۔ ایران کے ساتھ مذاکرات کے حالیہ دعوے بھی اسی سلسلے کا حصہ ہیں۔ اس طرح کے بیانات دے کر وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی مشرق وسطی کے بڑے فیصلوں میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں اور عالمی بحرانوں کے حل میں ان کی حیثیت کلیدی ہے۔

ٹرمپ نے یہ دعوی ایسے وقت میں کیا جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ یہ وقت ان کے لیے ایک مناسب موقع تھا کہ وہ ایران کا موضوع دوبارہ سامنے لائیں اور امریکی میڈیا میں یہ پیغام دیں کہ وہ ایک اہم علاقائی معاملے کو سنبھال رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ناکامیوں یا عملی کارکردگی کی کمی کو چھپاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اب بھی مشرق وسطی کی پیچیدہ سیاست کا محور ہیں۔

علاقائی اتحادیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش

ٹرمپ کے اس بیان کا ایک اور پہلو خطے کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب اب ایران کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کے بجائے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ٹرمپ کو خدشہ ہے کہ امریکہ کے روایتی اتحادی یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ واشنگٹن اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ ایران معاہدہ چاہتا ہے تاکہ وہ یہ تاثر دیں کہ ایران کا معاملہ ابھی بھی ان کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ خطے کی سیکیورٹی کا سب سے بڑا فیصلہ ساز ہے۔ وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ کی مداخلت کے بغیر کوئی سیاسی عمل ممکن نہیں، حتیٰ کہ ایران بھی امریکی دباؤ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔

یہ پیغام خاص طور پر محمد بن سلمان کے لیے اہم ہے، کیونکہ سعودی عرب ایک طرف ایران سے تعلقات بہتر کررہا ہے مگر دوسری طرف اسے یہ خدشہ بھی ہے کہ امریکہ کہیں اپنی سیکیورٹی کی یقین دہانی کم نہ کر دے۔ ٹرمپ اس طرح دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت اور اثر و رسوخ اب بھی برقرار ہے اگرچہ اصل صورتحال اس کے برعکس کیوں نہ ہو۔

ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش

ٹرمپ اور ان کی قومی سلامتی کی ٹیم اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ایسے وقت میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کرنا جبکہ تہران واضح طور پر اس کی تردید کرچکا ہے، اصل میں ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کی حکمت عملی ہے۔ اس حربے کا مقصد مذاکرات شروع کرنا نہیں بلکہ ایران کے بارے میں یہ تاثر پھیلانا ہے کہ وہاں فیصلہ سازی میں اختلاف یا کمزوری موجود ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران بھی ایسا کئی بار کیا۔ وہ بارہا دعوی کرتے تھے کہ ایران نے ہم سے رابطہ کیا ہے، حالانکہ ایسا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا۔ ان بیانات کا مقصد صرف میڈیا میں طاقت کے تاثر کو تقویت دینا اور تہران پر دباؤ بڑھانا تھا۔ اسی طریقے کو وہ اب دوبارہ استعمال کر رہے ہیں۔

ایران کی سرزمین پر امریکی حملے کے بعد ٹرمپ کوشش کر رہے ہیں کہ یوں دکھایا جائے کہ امریکی کارروائیوں نے ایران کو مذاکرات پر مجبور کردیا ہے۔ یہ دعوی ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی حملوں سے خطے میں ایران کی پوزیشن میں کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ ایک مصنوعی کہانی گھڑ کر یہ تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی فوجی طاقت نے مطلوبہ نتائج حاصل کیے ہیں۔ حقیقت میں یہ طرز عمل اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب وہ صرف بیانیہ سازی کے ذریعے اپنی کامیابی کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نتیجہ

ایران کے ساتھ کسی جاری مذاکراتی عمل کا ٹرمپ کا دعوی نہ کوئی غلط فہمی ہے اور نہ ہی ایک سادہ سیاسی بیان بلکہ وہی پرانا طریقہ ہے جس میں وہ خیالی کامیابیاں تخلیق کرتے ہیں؛ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں؛ اپنی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کو چھپاتے ہیں؛ امریکی عوام کی رائے کو اپنے حق میں موڑتے ہیں؛ خود کو میڈیا کی توجہ کے مرکز میں رکھتے ہیں؛ اپنے علاقائی اتحادیوں کو پیغام دیتے ہیں اور ایران پر نفسیاتی دباؤ بڑھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ اس طرح کے دعووں سے اپنی داخلی اور خارجی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکی دباؤ نے ایران کو جھکا دیا ہے، حالانکہ ایران کی دوٹوک تردید اور خطے کی عملی صورتحال ان کے بیانیے کو غلط ثابت کرتی ہے۔ یہ دعوی حقیقت کی نہیں بلکہ ٹرمپ کی ذاتی، سیاسی اور نفسیاتی ضرورتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی ضرورت جو انہیں مجبور کرتی ہے کہ کسی حقیقی رابطے کے بغیر بھی ایک نئی کہانی گھڑ کر خود کو ایران کے معاملے کا مرکزی کھلاڑی بنا کر پیش کریں۔

News ID 1936628

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha