مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران کا جوہری پروگرام برسوں سے عالمی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران نے افزودگی کی سطح محدود کی، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دی، اور شفافیت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم 2018 میں امریکہ کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبرداری اور دوبارہ سخت پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد یہ توازن بگڑ گیا۔ یورپی ممالک، جو معاہدے کے ضامن تھے، بھی عملی طور پر ایران سے کیے گئے وعدے نبھانے میں ناکام رہے، جس سے ایران میں شدید بے اعتمادی پیدا ہوئی۔ ان پابندیوں نے نہ صرف ایران کی معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ سائنسی، طبی اور زرعی شعبوں کو بھی متاثر کیا۔ ایران کا مؤقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور رہبر معظم کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے خلاف دی گئی فتویٰ کو اس مؤقف کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب، امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر عسکری دباؤ بڑھایا گیا ہے۔ اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، اور امریکہ نے "اسنیپ بیک" میکانزم کی بحالی کی کوشش کی، جس کے تحت اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں دوبارہ نافذ ہو سکتی ہیں۔ ایران ان اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملہ قرار دیتا ہے۔
صدر مسعود پزشکیان نے امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے علاقائی و عالمی مؤقف، غزہ جنگ کی صورتحال، جوہری پروگرام، امریکہ سے مستقبل کے تعلقات اور مشرق وسطی کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔
فوکس نیوز: جناب صدر، آپ کا شکریہ کہ آپ نے آج ہمارے ساتھ گفتگو کی۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ایک ایسے معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ممکنہ طور پر یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے؟ کیا آپ اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں؟
صدر پزشکیان: میں مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کے لیے کامیابی اور پیش رفت کی دعا کرتا ہوں۔ اگر یہ مذاکرات اور رپورٹس واقعی امن کی طرف لے جائیں اور غزہ کے محاصرے کے بحران کو حل کریں—جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں—تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
فوکس نیوز: صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ نیز، صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ اس پر کیا ردعمل دیتے ہیں؟
صدر پزشکیان: یہ کہنا کہ صہیونی حکومت کو موجودہ روش جاری نہیں رکھنی چاہیے، بذاتِ خود ایک مثبت قدم ہے۔ میری رائے میں یہ حکومت امریکہ کی اجازت کے بغیر ایسے اقدامات نہیں کر سکتی تھی۔ آج جو انسانی المیے وہاں جنم لے رہے ہیں، اس سے ہر باضمیر انسان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جہاں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، خوراک دستیاب نہیں، اور اسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ اقدام بہت پہلے بھی کیا جا سکتا تھا، اور اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ صدر ٹرمپ چاہیں تو صہیونی حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں اور جنگ کا خاتمہ ہو۔
فوکس نیوز: اسرائیل کے حملے میں آپ کے کئی دفاعی اور میزائل نظام تباہ ہوئے، اور حماس و حزب اللہ کو بھی نقصان پہنچا۔ یہ واقعات مشرقِ وسطیٰ کے حالات میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے، آج آپ کا ملک کس پوزیشن میں کھڑا ہے؟
صدر پزشکیان: جو کچھ حالیہ دنوں میں پیش آیا، اس نے ہمارے ملک کو مزید طاقت اور اتحاد بخشا۔ آج اگر آپ دیکھیں تو بین الاقوامی فورمز پر ہمارے کھلاڑی، سائنسدان، طلبہ اور طالبات مقابلوں میں قومی پرچم اور قومی ترانے کا خاص احترام کرتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی اتفاق اور اتحاد کی فضا قائم ہوئی ہے، اور داخلی یکجہتی میں اضافہ ہوا ہے۔ درحقیقت، 12 روزہ حملے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، انہوں نے ان لوگوں کو بھی متحد کر دیا جو پہلے ملک کے بارے میں تحفظات رکھتے تھے یا کبھی ہماری کارکردگی پر تنقید کرتے تھے۔ سب نے یک زبان ہو کر رہبر معظم کے پیچھے کھڑے ہو کر ایران کی سالمیت، اپنے حقوق اور آزادی کا بھرپور دفاع کیا۔ یہ حملہ، جو صہیونی حکومت نے کیا اور جسے ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا، ہمارے لیے داخلی اتحاد اور یکجہتی کا ایک اہم موقع بن گیا۔ صہیونی حکومت نے بین الاقوامی قوانین پامال کیے۔ اس نے نہ صرف ہمارے مراکز اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا بلکہ عام شہریوں پر بھی حملے کیے۔ میں نے اپنی جنرل اسمبلی کی تقریر میں ان خاندانوں کی تصاویر دکھائیں جنہوں نے ان واقعات میں اپنی جانیں گنوائیں۔ یہ سب کچھ کسی بھی قانونی یا بین الاقوامی ضابطے کے تحت قابل قبول نہیں۔ آپ کسی ملک سے عسکری اختلاف رکھ سکتے ہیں، لیکن بے گناہ عوام کو بمباری کا نشانہ بنانا اور ان کی جان لینا کسی صورت درست نہیں۔ یہ واقعات صرف تہران میں نہیں بلکہ غزہ، لبنان اور شام میں بھی ہو رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صہیونی حکومت بین الاقوامی قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتی اور بعض ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ رویہ کسی طور قابل قبول نہیں۔ آج دنیا میں اس حکومت کے خلاف جو نفرت پیدا ہوئی ہے، وہ بے مثال اور غیر معمولی ہے۔
فوکس نیوز: صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں کہا کہ ان کا مؤقف بہت واضح ہے؛ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا حامی ملک کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام ناقابلِ قبول ہے اور امریکہ اسے برداشت نہیں کرے گا۔ جناب ڈاکٹر پزشکیان، آپ اس بیان پر کیا ردعمل دیتے ہیں؟
صدر پزشکیان: یہ بات ہمارے لیے بالکل واضح ہے۔ جب سے میں نے ذمہ داری سنبھالی ہے، اور اس سے بھی پہلے، رہبر معظم نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی پالیسی میں جوہری ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے اسی بنیاد پر تمام مذاکرات کیے ہیں اور آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہیں۔ ہم نے مختلف فریقوں سے بات چیت میں صاف طور پر کہا ہے، اور اقوام متحدہ میں بھی اعلان کیا ہے کہ ہم تیار ہیں کہ تمام وہ مراکز، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے لیے بنائے گئے ہیں، بین الاقوامی معائنہ کاروں کے لیے کھول دیں تاکہ وہ جائزہ لے سکیں۔ ہمیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔
فوکس نیوز: لیکن مخالف فریق کا کہنا ہے کہ ایران کی یورینیم افزودگی 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور بعض تنصیبات زمین کے اندر بنائی گئی ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
صدر پزشکیان: دیکھیے، یہ درست ہے کہ شاید ہمیں یورینیم کی 60 فیصد افزودگی کی سطح کی ضرورت نہ ہو، لیکن اُس وقت ہم نے جوہری معاہدے کو قبول کیا تھا اور بین الاقوامی ایٹمی ادارہ بھی اسی طے شدہ اصولوں کے مطابق ہمارے مراکز کی مکمل نگرانی کر رہا تھا۔ چاہے وہ مراکز زمین کے اندر ہوں یا سطح زمین پر، جب بھی وہ چاہتے، آتے اور معائنہ کرتے۔ یہ امریکہ تھا جس نے جوہری معاہدے کو توڑا۔ امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپی کمپنیاں، جو ایران کے ساتھ تعاون کے لیے آئی تھیں، ایک ایک کر کے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ جب انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں، تو ہمارے ماہرین نے بھی فطری طور پر ان حدود سے باہر اپنا کام جاری رکھا۔
ہم نے موجودہ مذاکرات میں بھی واضح کر دیا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے، ہم اُسے انہی اصولوں کے تحت مذاکرات میں پیش کرنے کو تیار ہیں—بشرطیکہ ہمارے بین الاقوامی حقوق محفوظ رہیں۔ اگر یہ اصول برقرار رکھے جائیں، تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔ سب کچھ قابلِ جانچ ہے اور انہی اصولوں کے مطابق دیکھا جا سکتا ہے۔ مسئلہ وہاں سے شروع ہوا جب ان اصولوں کو نظر انداز کیا گیا، اور روز نئی پابندیاں لگائی گئیں۔ دنیا میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایران جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں اقوام متحدہ میں میری فرانسیسی صدر سے ملاقات ہوئی، اور ہم نے مسئلے کے حل کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں، جنہیں فرانسیسی فریق نے قبول کیا۔ انہوں نے امریکی فریق سے بھی بات کی، لیکن بدقسمتی سے امریکہ نے ان تجاویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اگر یہی رویہ جاری رہا اور مزید پابندیاں لگائی گئیں، تو مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
فوکس نیوز: کیا آپ کا ملک اس بات پر آمادہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی کو سنگل ڈیجٹ (یعنی 10 فیصد سے کم) سطح تک محدود کرے اور تمام جوہری تنصیبات کو، جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک کرتے ہیں، زمین کی سطح پر منتقل کرے؟
صدر پزشکیان: ہم تو پہلے ہی بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ ہم بین الاقوامی ایٹمی ادارے کی نگرانی میں ہیں اور NPT کے رکن بھی ہیں۔ پھر آخر کس بنیاد پر ہمارے زیرِ زمین مراکز پر حملہ کیا گیا؟ کیا ہم نے کوئی خلاف ورزی کی تھی؟ اور اگر فرض کریں کہ کوئی خلاف ورزی ہوئی بھی ہو، تو کیا صہیونی حکومت کو مداخلت کا حق حاصل ہے؟ وہ خود NPT کا رکن نہیں، اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے، اور وہ جوہری صلاحیت رکھتا ہے—تو اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اسے کیا حق تھا کہ وہ ہمارے جوہری مراکز پر بمباری کرے اور آخر میں کوئی اسے مذمت بھی نہ کرے؟ ہم مکمل طور پر تیار ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں جو کچھ ضروری ہے، وہ فراہم کریں اور انہی اصولوں پر عمل کریں۔ اگر ان اصولوں کا احترام کیا جائے، تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
فوکس نیوز: تقریباً 60 یا 90 دن قبل ایران پر حملے سے پہلے، صدر ٹرمپ اور اسرائیل یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ سے معائنہ کیا جا سکے۔ ان کی تشویش یہ تھی کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ چونکہ ایران نے ان مطالبات کو قبول نہیں کیا، اس لیے حملے شروع ہوئے۔ اس پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟
صدر پزشکیان: بالکل ایسا نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ بین الاقوامی ایٹمی ادارہ مسلسل ہمارے مراکز کا معائنہ کرتا رہا ہے اور ایسی رپورٹس پیش کی ہیں جو ان دعوؤں کے خلاف ہیں۔ ہم امریکہ سے بات چیت کر رہے تھے اور واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ ہم شفافیت کے لیے تیار ہیں۔ ایٹمی ادارہ ہی اس کا ذمہ دار ہے، اور آج تک اس نے کوئی ایسی رپورٹ پیش نہیں کی جس سے یہ ثابت ہو کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ بارہا آئے، جائزہ لیا، اور تمام رپورٹس نے یہی دکھایا کہ ایران بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم شفافیت کے لیے تیار تھے، تب حملہ شروع کر دیا گیا۔
فوکس نیوز: اگر مستقبل کی طرف نظر ڈالیں تو امریکی صدر کے خصوصی نمائندے، اسٹیو ویٹکاف، نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ ایران سے مذاکرات کر رہا ہے۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب رہبر معظم انقلاب نے واضح طور پر کہا ہے کہ مذاکرات کی ضرورت نہیں اور یہ بات چیت ایران کے لیے فائدہ مند نہیں۔ کیا یہ مؤقف آپ کے لیے سفارتی روابط میں مشکلات پیدا نہیں کرتا، خاص طور پر جب بہت سے ممالک بات چیت کے خواہاں ہیں؟
صدر پزشکیان: ہم نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ ہم بات چیت کر رہے تھے، تب ہی حملہ کر دیا گیا۔ آج جو صورتحال بنی ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ مخالف فریق نے وعدے پورے نہیں کیے اور جو کچھ کہا، اس پر عمل نہیں کیا۔ اس رویے نے ہمارے ملک میں، خاص طور پر ہمارے سیاستدانوں اور رہبر معظم کے ذہن میں یہ یقین پیدا کیا ہے کہ امریکہ دراصل مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتا؛ بلکہ وہ اسرائیل کی حمایت کے ذریعے ہمارے ملک اور خطے میں بدامنی پھیلانا چاہتا ہے۔ ہم نے کبھی بات چیت سے راہِ فرار اختیار نہیں کی۔ ابھی بھی اسنیپ بیک کے معاملے پر، جسے وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں، ہم نے کئی بار ان سے مذاکرات کیے ہیں۔ ہم نے تمام ممکنہ شرائط ان کے سامنے رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ یورپی ممالک سے کچھ مفاہمت بھی ہوئی، لیکن امریکہ نے قبول نہیں کیا اور اب وہ اسنیپ بیک نافذ کرنا چاہتا ہے۔ کیا اسنیپ بیک مسئلہ حل کرے گا؟ میرے خیال میں یہ صرف حالات کو مزید خراب کرے گا۔
فوکس نیوز: اسنیپ بیک یعنی پابندیوں کی فوری واپسی کے میکانزم کے حوالے سے، معلوم ہے کہ روس اور چین نے اس کے نفاذ کو مؤخر کرنے کی کوشش کی۔ تین تجاویز سامنے آئی ہیں: مکمل معائنہ اور جانچ پڑتال، اس یورینیم کی وضاحت جسے ایران نے حملوں سے پہلے منتقل کیا، اور امریکہ سے مذاکرات کا آغاز۔ کیا آپ ان تین اقدامات سے اسنیپ بیک کو مؤخر کرنے پر رضامند ہیں؟
صدر پزشکیان: ہم نے یہ مذاکرات پہلے ہی کیے ہیں اور ہم تیار ہیں کہ افزودگی سے متعلق جو کچھ ہوا ہے، وہ مذاکرات کے دائرے میں پیش کریں اور اس پر بات کریں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد جوہری بم بنانا نہیں ہے، تو یہ بات ہم واضح طور پر اور عقیدے کی بنیاد پر کہتے ہیں اور ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مسئلہ حل کرنے کے بجائے، مخالف فریق حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ اسنیپ بیک کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ حملے، تباہی، شہریوں کا قتل، اور پھر بین الاقوامی سطح پر یہ جھوٹا تاثر دینا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ سب ناقابلِ قبول ہے۔ ہم بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہر قسم کے تعاون اور جانچ پڑتال کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر وہ اسنیپ بیک نافذ کرتے ہیں اور دباؤ بڑھاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خود ہی مذاکرات کے دروازے بند کر رہے ہیں۔
فوکس نیوز: بعض افراد کا کہنا ہے کہ پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی اتنی زیادہ افزودگی کی ضرورت نہیں، اور اگر ایران کی جوہری تنصیبات زمین کی سطح پر ہوتیں تو شاید زراعت، طب اور دیگر شعبوں کو اس قدر نقصان نہ پہنچتا۔ دوسری طرف، صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے لیے عالمی تجارت کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں اور ایران کو ایک مضبوط اور ترقی پذیر مشرق وسطیٰ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ اس ممکنہ پیش رفت پر صدر امریکہ یا ان کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکاف سے براہِ راست بات چیت کے خواہاں ہیں؟
صدر پزشکیان: دیکھیے، اقتصادی معاملات کے حوالے سے ہمارا مؤقف واضح ہے: ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات رکھے۔ ہم نہ اندرونی طور پر اور نہ ہی بیرونی طور پر بدامنی کے خواہاں ہیں۔ لیکن جس انداز میں ہمارے ساتھ برتاؤ کیا جا رہا ہے، وہ خود ہمارے ملک میں مسائل پیدا کرتا ہے۔ صدر امریکہ کہتے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے چاہییں۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ہم تیار ہیں کہ معائنہ ہو، جانچ پڑتال ہو۔ اگر وہ واقعی اپنے مؤقف میں مخلص ہیں، تو ہم بھی مخلصانہ طور پر تعاون کے لیے تیار ہیں۔ تو پھر پابندیاں سخت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار نہ بنائے، اور ہم بھی یہی کہتے ہیں، تو پھر یہ دباؤ کیوں؟ ایران میں کیے گئے سروے کے مطابق، 50 فیصد سے زائد عوام کا کہنا ہے کہ ہمیں جوہری ہتھیار بنانے چاہییں تاکہ ہم ان دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔ حالانکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی پالیسی اور رہبر معظم کی ہدایات میں ایسا کوئی رجحان نہیں ہے۔ ہم کسی صورت جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ اس بات کی جانچ اور تصدیق کوئی مشکل کام نہیں۔ لہٰذا اگر وہ واقعی مخلص ہیں، تو آئیں اور ہمارے ساتھ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق برتاؤ کریں۔ پہلے اپنی نیت صاف کریں تاکہ ہمیں یقین ہو کہ ان کے عزائم منفی نہیں۔ تب ہم بھی عالمی اقتصادی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
فوکس نیوز: مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو رجحانات دیکھے جا رہے ہیں، ان میں اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے بعد "ابراہیم معاہدے" پر دوبارہ بات چیت کی خبریں شامل ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات، شام سے ممکنہ روابط، اور خطے کے ممالک کی جانب سے اقتصادی ترقی کے لیے علاقائی و بین الاقوامی معاہدوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ آپ ان تبدیلیوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟
صدر پزشکیان: خطے کے مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ میں چونکہ ڈاکٹر ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ جب تک کسی بیماری کی اصل وجہ کا علاج نہ کیا جائے، علامتی علاج کبھی مؤثر نہیں ہوتا۔ اس وقت جو ظلم و ستم اسرائیل کی جانب سے غزہ، لبنان اور فلسطین کے عوام پر ہو رہا ہے، وہی اصل مسئلہ ہے۔ جب تک ہم انصاف پر مبنی رویہ اختیار نہیں کرتے، کوئی بھی منصوبہ یا حل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مسئلے کی بنیاد انسانوں کی تحقیر ہے۔ کسی کو اس کی زمین سے بے دخل کرنا، ترقی سے محروم رکھنا، یہ سب وہ مظالم ہیں جن سے خطے کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ غزہ میں بچوں کی بھوک سے موت، اسپتالوں اور اسکولوں کی تباہی، صحافیوں کا قتل یہ سب ناقابلِ فراموش ہیں۔ چاہے آج امن قائم ہو جائے، ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ گزرا ہے، وہ کبھی نہیں بھولا جائے گا اور کسی نہ کسی صورت میں دوبارہ سامنے آئے گا۔ جب تک ان مظالم کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ اگر یہ رویہ جاری رہا، تو چاہے وقتی طور پر مقاصد حاصل ہو جائیں، مستقبل میں خود ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔
فوکس نیوز: کیا آپ مستقبل میں خطے کا ایسا منظرنامہ دیکھتے ہیں جس میں اسرائیل اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن طور پر موجود رہے؟
صدر پزشکیان: جو بھی قانون کو پامال کرے اور ایسا رویہ اختیار کرے جس سے عوام ردعمل پر مجبور ہوں، وہ لازماً مشکلات کا شکار ہوگا۔ یہ معاملہ اسرائیل کے رویے اور اس کے عوام سے برتاؤ سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ صرف باتوں، تائید یا مخالفت سے حل نہیں ہوتا۔ جو نفرت آج خطے کے عوام کے دلوں میں پیدا ہوچکی ہے، وہ آسانی سے ختم نہیں ہوگی۔ اگر اسرائیل خطے میں رہنا چاہتا ہے، تو اسے انسانی اور قانونی اصولوں کا احترام کرنا ہوگا۔
فوکس نیوز: ہم سب نے "مردہ باد اسرائیل" اور "مردہ باد امریکہ" جیسے نعرے سنے ہیں، اور دیکھا ہے کہ حزب اللہ اور حماس نے 7 اکتوبر کو کس قدر تباہی مچائی۔ یہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟
صدر پزشکیان: جیسا کہ میں نے پہلے کہا، یہ سب ردعمل ہیں، اصل وجہ نہیں۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ حزب اللہ، حماس یا دیگر گروہوں نے ردعمل کیوں دیا؟ کیا وہ پاگل تھے؟ یقیناً نہیں۔ جب کسی کو اس کے گھر سے نکالا جائے، اسے ذلیل کیا جائے، یا اس کا گھر تباہ کر دیا جائے، تو ہر انسان ردعمل دے سکتا ہے۔ چاہے اس کا نام حماس ہو یا نہ ہو، کوئی اور گروہ وجود میں آ جائے گا۔ یہ ایک انسانی ردعمل ہے، ایسے رویے کے خلاف جو انصاف اور باہمی احترام پر مبنی نہ ہو۔
آپ کا تبصرہ