مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایسے میں جب پیرس میں اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹجک امور ران ڈرمر اور شام کے وزیر خارجہ اسعد شیبانی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، عبرانی اخبار معاریو نے خبر دی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنرل اسمبلی اجلاس سے پہلے نتن یاہو اور جولانی کی ملاقات کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تقریباً دو ماہ قبل جب اسرائیلی وزیر اعظم واشنگٹن گئے تھے تو بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ، شام کو بھی باضابطہ طور پر ابراہیم معاہدے میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم یہ خبر اس وقت آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں پر اپنی حاکمیت اور دمشق میں موجودہ حکومت کو ہٹانے کے معاملے میں کسی لچک کے لیے تیار نہیں تھا۔
اسی دوران شام کی وزارتِ دفاع اور صدارتی محل پر حملہ ہوا۔ اب جبکہ باکو اور پیرس میں شام اور اسرائیل کے حکام کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ شام پہلے کے مقابلے میں زیادہ قریب ہے کہ وہ ابراہیم معاہدے میں شامل ہو اور خطے میں اسرائیل کا نیا سکیورٹی اتحادی بن جائے۔
19 اگست کو پیرس میں امریکی نمائندۂ خصوصی برائے امورِ شام، ٹام باراک کی وساطت سے شام کے وزیر خارجہ اسعد شیبانی اور اسرائیلی وزیر ران درمر کے درمیان ملاقات ہوئی۔ اس اجلاس کا ایجنڈا شام اور مقبوضہ علاقوں کی سرحدی سیکورٹی کے انتظامات تھے۔ شامی سرکاری خبر رساں ادارے "سانا" نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان کچھ سمجھوتے طے پائے ہیں۔ شامی ٹی وی کے مطابق اس ملاقات میں شامی خفیہ ایجنسی کے سربراہ حسین سلامہ بھی شریک تھے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ صوبہ السویدا شام کا لازمی حصہ رہے گا۔
امریکی ویب سائٹ آکسیوس کے مطابق اس ملاقات میں ایک راہداری قائم کرنے پر بات ہوئی جو مقبوضہ علاقوں سے السویدا تک جائے گی۔ یہ منصوبہ دراصل کوریڈور داوود کا ابتدائی حصہ سمجھا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شامی حکام اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان رابطے ابتدا سے جاری تھے لیکن اب اس کا کھلے عام اعتراف کیا جارہا ہے۔ معاہدے کے مطابق اس راہداری کی فضائی حفاظت امریکہ اور اسرائیل کریں گے جبکہ یونفیل زمینی قافلوں کی حفاظت پر مامور ہوگی۔ شامی حکومت صرف راہداری کی حفاظت کرے گی۔
الجولانی کو تعلقات معمول پر لانے کی گاڑی پر سوار کرنے کی سیاسی کوششیں کئی ماہ پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ 18 اپریل 2025 کو الجولانی نے امریکی کانگریس کے ریپبلکن ارکان کوری میلز اور مرلن اسٹوٹزمین سے ملاقات کی جس میں دوطرفہ، علاقائی اور عالمی مسائل پر بات ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان ارکان نے بعد ازاں اس ملاقات کی تفصیلات اس وقت کے قومی سلامتی مشیر مائیک والٹز کو فراہم کیں اور جولانی کا پیغام ٹرمپ تک پہنچایا۔ میلز نے "بلومبرگ" کو بتایا کہ اس ملاقات کے اہم نکات شام پر عائد پابندیوں کا خاتمہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی تھے۔ اس ملاقات کے بعد سعودی عرب کی ثالثی میں الجولانی اور ٹرمپ کی ملاقات ہوئی جس میں پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔
جولائی 2025 میں ٹرمپ نے باضابطہ طور پر شام پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ اور حال ہی میں امریکی وزارت خزانہ نے ان پابندیوں کے خاتمے کے لیے حتمی ضابطے جاری کر دیے۔ دفترِ کنٹرول برائے غیر ملکی اثاثہ جات نے اعلان کیا کہ چونکہ اب وہ قومی ہنگامی حالت ختم ہوگئی ہے جس کی بنیاد پر یہ پابندیاں لگائی گئی تھیں اور امریکی پالیسی میں تبدیلی آچکی ہے، اس لیے شام پر عائد پابندیاں وفاقی قوانین سے خارج کی جارہی ہیں۔
لبنانی اخبار "الاخبار" کے مطابق شام نے تعلقات بحال کرنے کے لیے یہ شرائط رکھی ہیں کہ اسرائیل جولانی حکومت کو تسلیم کرے؛ شام پر اسرائیلی حملے ختم کیے جائیں؛ جنوبی شام میں نئے سکیورٹی انتظامات نافذ ہوں اور امریکہ، اسرائیل کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کی ضمانت دے۔
دوسری طرف اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر شام سے نکلنے کے لیے تیار نہیں بلکہ ایک نئے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی طرز پر سرحدی علاقوں کو تین سکیورٹی زونز میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق، زون "الف" میں اسرائیلی فوج سکیورٹی ضمانت کے لیے موجود رہے گی۔
زون "ب" میں مقامی فورسز ہوں گی لیکن شامی فوج کو اجازت نہیں ہوگی۔
زون "پ" میں صرف شامی فوج ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ موجود رہ سکے گی۔
اسی کے ساتھ اسرائیل دمشق سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس پر بھی غور کر رہے ہیں کہ گولان کو باضابطہ طور پر شام کی زمین تسلیم کرکے 99 برس کے لیے اسرائیل یا امریکہ کو کرایے پر دے دیا جائے۔ ایک اور امکان یہ ہے کہ امریکی حمایت کے ساتھ شام گولان سے دستبردار ہوجائے اور اس کے بدلے لبنان کے شہر طرابلس پر قبضہ کرکے اسے اپنے ملک میں شامل کرلے۔
ابومحمد الجولانی اور نتن یاہو کی ممکنہ ملاقات مشرقی بحیرۂ روم کی جغرافیائی سیاست کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ یہ ملاقات شام اور اسرائیل کے درمیان گہرا سکیورٹی رشتہ قائم کرنے کی بنیاد ڈالے گی اور آئندہ ایسے واقعات کی راہ ہموار کرے گی جن میں "کوریڈور داوود" کا قیام یا شمالی عراق اور جنوبی لبنان پر حملے شامل ہوسکتے ہیں۔
گریٹر اسرائیل کے خواب کے مطابق شام کے بڑے حصے پر صہیونی قبضے کا امکان ہے۔ یہ تب اور اہم ہو جاتا ہے جب خود نتن یاہو نے "آئی 24" ٹی وی کو بتایا کہ ان کا تاریخی و روحانی مشن "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو حقیقت بنانا ہے۔ اگرچہ یہ سیاہ خواب فوری طور پر پورا ہونا ممکن نہیں، لیکن اسرائیل کے بڑھتے اقدامات آہستہ آہستہ عرب ملکوں کی خودمختاری ختم کردیں گے اور ان کی سرزمین کو تل ابیب کی نئی مہم جوئیوں کا میدان بنا دیں گے۔
آپ کا تبصرہ