مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، حسن نوریان: ایران اور پاکستان دونوں برادر اسلامی اور ہمسایہ ممالک کے طور پر تاریخی اور دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی دونوں ممالک کے درمیان حکومتی اور عوامی سطح پر دوستانہ تعلقات اور برادرانہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کی آزادی کو تسلیم کیا اور اس کے بعد کراچی، جو اُس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا، میں اپنا سفارت خانہ کھولا۔ اسی طرح، پاکستان بھی پہلے ممالک میں سے تھا جس نے 1979 میں ایران کی اسلامی انقلاب کی کامیابی کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔
دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی، لسانی، تاریخی اور مذہبی روابط گہرے ہیں اور انہوں نے تاریخ کے ہر مشکل اور خوشگوار موقع پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں ممالک کی ثقافتی مماثلت اتنی زیادہ ہے کہ جب ان کے شہری ایک دوسرے کے ملک کا سفر کرتے ہیں تو وہ خود کو غیر ملکی یا اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ تہران میں محمد علی جناح ہائی وے اور پاکستان اسٹریٹ جیسے اہم مقامات موجود ہیں۔ اسی طرح، پاکستان کے بڑے شہروں بشمول کراچی میں ایران ایونیو اور ایرانی شاعروں جیسے فردوسی، سعدی، حافظ، خیام وغیرہ کے نام پر گلیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
اسلامی جمہوری پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد، 2 سے 3 اگست 2025 کو محترم ڈاکٹر پزشکیان، صدر ایران اور ان کے ہمراہ وفد کی میزبانی کر رہا تھا۔ یہ درحقیقت ڈاکٹر پزشکیان کا ایران کے 14ویں صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپریل 2024 میں شہید آیت اللہ رئیسی نے بھی لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے شہروں کا تین روزہ دورہ کیا تھا جہاں پاکستانی عوام اور حکام کی طرف سے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا گیا تھا۔ آیت اللہ رئیسی اور ان کے ہمراہ رہنے والوں کے ہیلی کاپٹر حادثے اور شہادت کے بعد، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر حکام تہران آئے تاکہ تعزیتی تقریب میں شرکت کرسکیں۔ اس سال مئی میں، شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر تہران کا دورہ کیا تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کے حوالے سے ایران کے موقف پر شکریہ ادا کرسکیں۔ ڈاکٹر پزشکیان نے وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر اسلام آباد کا جوابی دورہ کیا۔
ڈاکٹر پزشکیان نے اپنے سرکاری دورے کا آغاز پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دے کر کیا، جو پاکستان کے معروف فلسفی اور شاعر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کی مجموعی شاعری کا تقریبا 70 فیصد حصہ، یعنی 8,000 سے زائد اشعار فارسی زبان میں لکھے گئے ہیں۔
اسلام آباد میں دورے کے دوران ایرانی وفد نے پاکستان کے وزیراعظم، صدر، وزیرِ خارجہ، آرمی چیف، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سربراہان، اور کاروباری حلقوں سے ملاقاتیں کیں، جن کا مقصد پڑوسی پہلے پالیسی کو عملی جامہ پہنانا تھا۔
دوطرفہ سالانہ تجارتی حجم تقریبا 3 بلین ڈالر ہے۔ دونوں ملکوں میں تجارتی مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ حجم بہت کم ہے لہذا دونوں ممالک تجارتی مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے حجم میں اضافے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے نقل و حمل، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، اور آزاد تجارت کے شعبوں میں 12 تعاون کے معاہدے کیے، جن کے کامیاب نفاذ سے دوطرفہ تعلقات کو نمایاں فروغ مل سکتا ہے۔
سیاسی تعلقات کی مضبوطی کا ایک اہم ثبوت حکام کی باقاعدہ ملاقاتیں اور ایک دوسرے کے ممالک کے دورے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں ایران اور پاکستان کے اعلی حکام چار مرتبہ ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ کرچکے ہیں، اور اس کے علاوہ علاقائی اور عالمی اجلاسوں کے دوران بھی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ بار بار ملاقاتیں تعلقات کی گہرائی اور اس کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب تعاون کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
گذشتہ چند دہائیوں میں ایران-پاکستان تعلقات میں نسبتا استحکام آیا ہے، تاہم، موجودہ دورے کی خاص اہمیت خطے کی سیاسی صورتحال اور حالیہ مہینوں میں جنوبی اور مغربی ایشیا کے علاوہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے منسلک ہے۔
مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جنگ نے، دونوں جو نیوکلیئر طاقتیں ہیں، خطے میں ایک انتہائی حساس صورتحال پیدا کی۔ اگرچہ یہ جنگ مختصر مدت کی تھی، مگر اس کے اثرات دونوں ممالک، خطے اور عالمی سطح پر ابھی تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، غزہ میں جاری جنگ اور نسل کشی نے عالمی سیاست کو گہرائی سے متاثر کیا ہے۔
ایسے میں ایران اور پاکستان جیسے اسلامی ممالک کے موقف کی بہت اہمیت ہے۔ تہران اور اسلام آباد نے ہمیشہ مشترکہ اور مضبوط موقف اپنایا ہے اور فلسطینی مسئلہ کی مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے۔ صہیونی حکومت کی طرف سے ایران پر مسلط گئی بارہ روزہ جنگ نے خطے اور اسلامی دنیا کی جغرافیائی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان کی حیثیت، ایک بڑے اور مؤثر مسلم ملک اور نیوکلیئر طاقت کے طور پر اس حساس دور میں بہت اہم ہے۔ ایرانی عوام اور حکام نے ہمیشہ پاکستان کے بہادر اور برادرانہ موقف کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
اسلام آباد کے حکام نے ایران کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش اور ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر عراقچی کے پاکستان اور بھارت کے دورے کو نہایت اہمیت دی ہے، جو خطے میں کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ اقدامات اسلام آباد میں ایران کی نیک نیتی اور علاقائی امن کے لیے سنجیدہ عزم کی علامت سمجھے جا رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو جوڑنے والا ایک اہم عنصر عوامی رائے کی حساسیت ہے، خاص طور پر فلسطینی مسئلے پر دونوں ممالک کے عوام کی یکجہتی اور صہیونی قابضین اور غزہ میں ان کے جرائم کے خلاف مشترکہ مخالفت۔ یہ موقف دونوں قوموں کے بانی رہنماؤں، امام خمینی اور محمد علی جناح کی اصولی پالیسیوں کی بنیاد پر قائم ہے اور آج بھی جاری ہے۔
اس وقت ایران کے جوہری مراکز پر صہیونی حکومت اور امریکہ کے مشترکہ غیر قانونی حملوں کے حوالے سے سخت تشویش پائی جاتی ہے، اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات کسی اور جگہ بھی دہرائے جاسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل نمائندے کی جانب سے ایران پر صہیونی حملے کی شدید مذمت کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی کیونکہ پاکستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن اور کونسل کا صدر بھی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر ڈاکٹر پزشکیان کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان نے ایران کے جوہری حق کی حمایت اور مذاکرات پر زور دیا۔
ایرانی اور پاکستانی حکام اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 900 کلومیٹر لمبی سرحد کو محض ایک سیکیورٹی سرحد رکھنے کے بجائے اقتصادی سرحد میں تبدیل کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف تعاون کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ میکانزم بھی قائم کیے گئے ہیں۔ دونوں ممالک میں بے شمار اقتصادی مواقع موجود ہیں جنہیں فعال کرنے کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔
دینی سیاحت کے حوالے سے پاکستان کے لاکھوں زائرین کی آمد بھی ایک اہم موقع ہے۔ فی الحال ریمدان اور میرجاوہ میں دو زمینی سرحدیں فعال ہیں جو سیاحوں اور تاجروں کے لیے سفر کو آسان بناتی ہیں۔ انفراسٹرکچر کو مضبوط بنا کر دونوں ممالک کے عوام کے درمیان سفر میں اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے، جس سے عوامی روابط اور باہمی صلاحیتوں کی آگاہی بڑھانے میں مدد ملے گی۔
دونوں معیشتیں ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں، اور نجی شعبے اور کاروباری افراد کے لیے یہ ترجیح ہونی چاہیے کہ وہ مشترکہ مفادات پر توجہ دیں۔ ایران جو چیزیں دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے، ان میں سے بہت سی پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہیں، اور پاکستان جو اشیاء برآمد کرتا ہے وہ ایران بھی مختلف ذرائع سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے برعکس بھی یہی صورت حال ہے۔ پاکستان اپنے کئی ضروریات ایران سے پورا کرسکتا ہے اور قریبی فاصلے اور کم لاجسٹک خرچ سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ ایران-پاکستان چیمبر آف کامرس کو ایک صوبائی ادارے سے قومی سطح پر اپ گریڈ کرنا چاہیے تاکہ یہ تعلقات میں مزید اہم کردار ادا کرسکے۔
ایک ایرانی کہاوت ہے: "اچھا پڑوسی دور کے رشتے دار سے بہتر ہوتا ہے۔" پاکستان نہ صرف ایک اچھا پڑوسی بلکہ ایک قریبی رشتہ دار بھی ہے۔
آپ کا تبصرہ