مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب ایران اور قابض صہیونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی طے پائی۔ یہ جنگ اسرائیل کی جانب سے ایران پر جارحیت کے بعد شروع ہوئی، اور ایران کی پرعزم مزاحمت اور تباہ کن جوابی حملوں نے بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔
زیادہ تر بین الاقوامی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور عوامی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، اس جنگ میں ایران کو برتری حاصل ہوئی اور وہ فاتح کی حیثیت سے ابھرا۔ تاہم جنگ کے بعد ایک اہم تشویش یہ ہے کہ اسرائیل شاید دوبارہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کا ارادہ رکھتا ہے اور جنگ بندی کو صرف ایک وقفہ کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ اپنے زخم چاٹ کر دوبارہ لڑنے کی تیاری کرسکے۔ اسرائیلی حکام، جیسے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور جنگ کے وزیر اسرائیل کاتز، کھلے عام ایران کو دھمکیاں دے رہے ہیں، اور اپنی اشتعال انگیز زبان سے ایرانی عوام کے اندر خوف اور عدم تحفظ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی حالیہ جارحیت نے ایرانی قوم کو پہلے سے زیادہ متحد کر دیا ہے۔ اگرچہ اس وقت میدان خاموش ہے، لیکن اگر اسرائیل دوبارہ ایران پر حملہ کرنا چاہے تو اسے تین بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا:
عالمی اور علاقائی رائے عامہ اسرائیلی جارحیت کو مسترد کرے گی۔ اگر صہیونی حکومت ایران پر دوبارہ حملہ کرتی ہے تو نہ صرف خطے کے عوام بلکہ عالمی سول سوسائٹی اور سیاسی تحریکوں کی جانب سے سخت ردِعمل آئے گا۔
اسرائیل کی جنگ جو اور جارحانہ فطرت اب پہلے سے کہیں زیادہ دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس طرح کی کھلی جارحیت کی صورت میں عالمی حکومتوں کے لیے اسرائیل کی حمایت سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ حتی کہ اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی امریکہ بھی کسی نئی اسرائیلی جارحیت کا کھل کر ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گا۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو ایران پر دوبارہ حملہ اسرائیل کو عالمی سطح پر ایک سرکش حکومت کے طور پر پیش کر سکتا ہے اور اس کو اسرائیل موجودہ عالمی تنہائی کے ماحول میں برداشت نہیں کر سکتا۔
ایران اب اچانک حملوں کا شکار نہیں بنے گا۔ اسرائیل نے حالیہ حملہ اس وقت کیا جب ایران اور امریکہ کے درمیان سفارتی بات چیت جاری تھی، اور اس اقدام کو عالمی سطح پر بزدلی اور موقع پرستی کے طور پر دیکھا گیا۔ اب ایران پوری طرح چوکنا ہے اور اس کی مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا فوری، مؤثر اور فیصلہ کن جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
ایران کے پاس جدید میزائل اور فوجی ٹیکنالوجی کی وسیع اقسام موجود ہیں جو حالیہ جنگ میں مکمل طور پر استعمال نہیں ہوئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے جو فوجی ٹیکنالوجی استعمال کی، وہ 15 سے 20 سال پرانی تھی اور وہ بھی اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔
صہیونی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ایران نے ابھی اپنی مکمل فوجی طاقت استعمال نہیں کی، اور اگر وہ دوبارہ حملہ کرتا ہے تو اسے کہیں زیادہ شدید اور خطرناک جواب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ صورتحال اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کو مکمل طور پر تبدیل کردیتی ہے۔
اسرائیلی عوام اب نیتن یاہو کے ارادوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ اسرائیل کے اندر زیادہ سے زیادہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نتن یاہو کی جنگیں قومی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ہیں۔ ملک کے اندر ایک بڑھتا ہوا احساس پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ دراصل اسرائیل کے لیے تباہی لائے گی، اور ممکن ہے کہ اسرائیل کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دے۔
حالیہ جنگ کے دوران سامنے آنے والی تباہیوں کے بعد نتن یاہو کی جنگی پالیسیوں پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ذاتی سیاسی بقا کے لیے لڑی گئی جنگوں نے اسرائیلی معاشرے میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو اندرونی سطح پر بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور جنگ کے خلاف عوامی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ