مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، محرم الحرام کی چھٹی مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے چند ہی عرصے بعد نواسۂ رسولؐ کو واجب القتل سمجھا گیا، بیت اللہ کو نذر آتش کرنے اور محراب رسولؐ کو توہین کا نشانہ بنانے والی سوچ نے اسلام کے مقدس مقامات اور عقائد کو شدید نقصان پہنچایا۔
ہیئت سید الشہداء کے زیر اہتمام محرم الحرام کی مجلس کے دوران آیت اللہ رئیسی نے وضاحت کی کہ عوام جہالت اور دینی شعور کی کمی کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں، جبکہ خواص، دولت کی خواہش یا حکومت کے خوف کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عزاداری کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ امام حسینؑ کی محبت مومنین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے، تاہم دشمن عزاداری کو بے معنی کرنے اور اس کے اصل مقصد کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ منافقین نے حکومت پر قبضہ کرکے اسلام کو اس کے اصل ہدف سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ نہج البلاغہ میں مولا علیؑ نے اس کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ اسلام کے نفاذ کے لیے حکومت کا ہونا ضروری ہے، اور جب حکومت مخلص مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے تو دین اور دینی اقدار کی ترقی ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی قتل کرنے کی سازش ناکام ہوئی اور منافقین حکومت نہ ہونے کی وجہ سے قتل نہیں کرسکے، لیکن انہوں نے بعد میں حکومت پر قبضہ کرنے کی پوری منصوبہ بندی کر لی۔
انہوں نے امام حسینؑ کے قیام کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امامؑ نے یزید کی حکومت کے خلاف اس لیے قیام کیا کیونکہ منافقین اور کافروں کی حکومت چلی تو اسلام کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ یزید کی بیعت سے انکار کے بعد اگلے دن مروان نے امام حسینؑ کو بیعت کی تجویز دی، لیکن امامؑ نے سختی سے انکار کیا اور فرمایا کہ یزید جیسے ظالم کا حاکم بننا اسلام کے لیے تباہ کن ہے۔
آیت اللہ رئیسی نے بتایا کہ امام حسینؑ نے مدینہ سے مکہ کا سفر اس لیے کیا تاکہ امن کے ماحول میں اپنی تحریک کو زیادہ سے زیادہ موثر طریقے سے آگے بڑھاسکیں اور دنیا بھر سے حج و عمرہ کے لیے آنے والے مسلمانوں کو یزید کی حکومت کے خلاف اپنا پیغام پہنچا سکیں۔ امامؑ نے حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے مکہ چھوڑ دیا تاکہ اپنی تحریک کی حقیقت کو دنیا تک پہنچا سکیں۔
آپ کا تبصرہ