مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور اسرائیل کے درمیان گیارہ دنوں تک سخت تصادم کے بعد جنگ بندی ہوگئی۔ دونوں کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان قانونی طور پر کیا طے پایا ہے، ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اور بین الاقوامی اداروں کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ نیز، کیا جنگ بندی کو صلح سمجھا جاسکتا ہے؟
بین الاقوامی قانون کے تناظر میں صلح اور جنگ بندی کے درمیان بنیادی فرق موجود ہے، جو فریقین اور عالمی اداروں کے لیے اہم قانونی نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
جنگ بندی ایک عارضی اور فوری نوعیت کا معاہدہ ہوتا ہے، جو مسلح تصادم کو وقتی طور پر روکنے کے لیے کیا جاتا ہے، بغیر اس کے کہ تنازعے کا مستقل حل پیش کیا جائے۔ یہ معاہدہ دو طرفہ، یک طرفہ یا بین الاقوامی اداروں کی مداخلت سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی نوعیت سیاسی اور عسکری ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریری یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔
اس کے برعکس، صلح ایک جامع اور حتمی معاہدہ ہوتا ہے، جو مذاکرات اور بعض اوقات ثالثی کے ذریعے طے پاتا ہے۔ صلح میں سیاسی، قانونی، علاقائی اور سیکیورٹی پہلو شامل ہوتے ہیں، اور یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگ کے باضابطہ خاتمے اور ریاستوں کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کا ذریعہ بنتا ہے۔ صلح کے لیے معاہدۂ صلح پر دستخط ضروری ہوتے ہیں، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے مطابق، ہر بین الاقوامی معاہدے کی منظوری ملک کی پارلیمنٹ سے لینا لازم ہے۔ لہذا موجودہ صورتحال کو صلح قرار دینا کسی بھی طور پر درست نہیں ہوگا۔ یہ صرف ایک جنگ بندی ہے، اور اس کی نوعیت عارضی اور غیر حتمی ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے باوجود، قانونی ماہرین اور حکام کا کہنا ہے کہ یہ جنگ بندی نہ تو جنگی صورتحال کا خاتمہ ہے اور نہ ہی اسرائیلی جرائم کی تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ قانونی نقطۂ نظر سے جنگ بندی صرف مسلح تصادم کو عارضی طور پر روکنے کا معاہدہ ہے، نہ کہ اس کا باضابطہ اختتام۔ اس لیے دونوں ممالک اب بھی بین الاقوامی قانون کے تحت بین الاقوامی مسلح تنازع کی حالت میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر فریقین میں سے کوئی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرے، تو یہ نہ صرف جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس پر فردی فوجداری اور ریاستی بین الاقوامی ذمہ داری بھی عائد ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے منشور کے باب ششم اور ہفتم کے تحت، ایسی خلاف ورزی کی صورت میں سلامتی کونسل پابندیاں، مذمت یا امن مشن بھیجنے جیسے اقدامات کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون اور فوجداری قانون کے مطابق، جنگی جرائم کی فوجداری ذمہ داری جنگ کے خاتمے یا جنگ بندی کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔ اس لیے اسرائیل کی جانب سے حالیہ جنگ میں کیے گئے اقدامات مثلا شہریوں پر حملے، اسپتالوں، امدادی اداروں، میڈیا دفاتر اور بنیادی شہری ڈھانچے کو نشانہ بنانا واضح طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جن کی تحقیقات اور قانونی کارروائی جنگ بندی کے باوجود ممکن اور ضروری ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی اور امن کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے، جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے، جیسا کہ اس کے آرٹیکل 5 میں درج ہے۔
لہذا جنگ بندی جنگی صورتحال کو ختم نہیں کرتی، اور ایران کو اپنی دفاعی و حملہ آور تیاریوں کو برقرار رکھنا چاہیے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے سنگین قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کی جنگی اور امن دشمن کارروائیوں کی بین الاقوامی سطح پر پیروی اور جوابدہی ضروری ہے، اور ایران کی قانونی و سفارتی مشینری کو اس مقصد کے لیے سرگرم رہنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ