28 مئی، 2025، 5:29 PM

مہر خبررساں ایجنسی کی خصوصی رپورٹ؛

علی اور فاطمہ کا رشتہ: آج کے نوجوانوں کے لیے آسان شادی کا آسمانی نسخہ

علی اور فاطمہ کا رشتہ: آج کے نوجوانوں کے لیے آسان شادی کا آسمانی نسخہ

حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا آسمانی اور مقدس رشتہ آج کے نوجوانوں کے لیے شادی کے مسائل اور معاشی چیلنجوں کا ایک عملی اور الہی حل پیش کرتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: یکم ذی الحجہ یا بعض روایات کے مطابق چھ ذی الحجہ کا د، تاریخ اسلام کا ایک روشن اور بابرکت لمحہ ہے۔ یہ وہ دن ہے جب دو نورانی ہستیاں، حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کے ساتھ ازدواجی زندگی میں داخل ہوئیں۔ یہ رشتہ عام گھریلو بندھن نہیں تھا کیونکہ اس پاکیزہ رشتے کے نتیجے میں گیارہ معصوم اماموںؑ کی صورت میں امت کے لیے ہدایت کے چراغ ملے۔

حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی مقدس شادی کی نمایاں خصوصیت اس کی سادگی تھی جس میں نہ مال و دولت کی نمائش تھی اور نہ ہی رسم و رواج کی بھرمار۔ سادہ سا مہر، جو خود حضرت فاطمہؑ نے قبول کیا، اور ایک نہایت سادہ تقریب جو خوشنودیِ خدا سے معمور تھی۔ یہ شادی آج کے ان نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے جو شادی کی مہنگی اور دکھاوے سے بھرپور رسومات یا اقتصادی مسائل کی وجہ سے شادی سے گریزاں ہیں۔

شادی صرف ایک انفرادی ضرورت نہیں بلکہ ایک سماجی ضرورت بھی ہے۔ یہ روح کا سکون، اخلاقی ارتقاء اور بہت سے انفرادی و اجتماعی مسائل سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ اس لیے شادی کو آسان بنانا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ والدین کو چاہئے کہ غیر ضروری توقعات ترک کریں اور حکومت و سماجی تنظیموں کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے شادی کو آسان بنانے کے لیے سہولتیں، مالی امداد اور سادہ طریقہ کار فراہم کریں۔

مہنگائی، قرضوں کے لیے طویل قطاریں، بینکوں کی وعدہ خلافیاں اور اقتصادی دباؤ وہ عوامل ہیں جو آج کے نوجوانوں کو شادی کرنے سے روک رہے ہیں۔ ان سب کے ساتھ مغربی میڈیا کی فرد پرستی پر مبنی طرزِ زندگی کی ترویج بھی خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔

آج پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور بروقت شادی کی ضرورت ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کیا گیا تو ہمارے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

حضرت علیؑ اور حضرت زہراؑ کی مقدس شادی کے دن کی مناسبت سے مہر نیوز نے حجت الاسلام مہدی محبی سے خصوصی گفتگو کی۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی محبی نے اسلام میں شادی کی عظمت اور اس کے روحانی و عملی فوائد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: "اگر فقیر ہو تو شادی کرو، اللہ تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا" (یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ)۔
ایک اور آیت میں، میاں بیوی کو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا گیا ہے جس سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ کے دفتر کے ثقافتی امور کے معاون نے اس بات پر زور دیا کہ شادی کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا چاہیے کیونکہ یہ دینی ذمہ داری ہے۔ یہ رشتہ انسان کو خود پرستی سے نکال کر ایثار و قربانی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ شادی انسان کے کمال و ترقی کا ذریعہ ہے اور صبر، جدوجہد اور استقامت جیسی صفات کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے اور خاندان کی بنیاد رکھتی ہے۔

انہوں نے شریکِ حیات کے انتخاب کے کچھ اصول بھی بیان کیے اور کہا کہ شریک حیات کے انتخاب میں ان اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے مثلا ایمان و تقویٰ، نیک اور بااصول خاندان سے تعلق، عقل و منطق اور حق کو قبول کرنے کا جذبہ، کام کرنے اور محنت کا جذبہ اور ذمہ داری کا احساس ہونا ضروری ہے۔

حجۃ الاسلام محبی نے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے کلیدی نکات بھی بیان کرتے ہوئے کہا کہ شریکِ حیات کو اللہ کی نشانی سمجھنا اور اس کی قدردانی کرنا چاہئے۔ اچھائیوں کو مدنظر رکھنا اور خامیوں کو نظر انداز کرنا زندگی کا فن ہے۔ جیسا جیون ساتھی ہے، اسے ویسا ہی قبول کرنا اور محبت کرنا سکون کی بنیاد ہے۔ میاں بیوی کو رازدار ہونا چاہیے اور ذاتی مسائل کو صرف ضرورت کے وقت ہی دوسروں سے بیان کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں توقعات کو کم اور تشکر کو زیادہ کرنے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ جب توقعات کم ہوں گی، تو صبر اور برداشت بڑھ جائے گا۔

انہوں نے اس آسمانی جوڑے کی سادگی اور عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ نے جب اپنا کھانا فقیر و یتیم کو دے دیا تو فرمایا: ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے، ہم نے صرف اللہ کے لیے یہ کیا ہے۔ یہ پاکیزہ اور سادہ زندگی آج کے نوجوانوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک الٰہی نمونہ ہے۔

حجت الاسلام محبی نے کہا کہ آج کے تیزرفتار اور مادہ پرست دور میں ازدواجی تعلقات اکثر غلط توقعات، سماجی دباؤ اور سطحی معیارات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں اہل بیتؑ کی سیرت بالخصوص حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی پاکیزہ ازدواجی زندگی کا مطالعہ کرنے میاں بیوی کے اندر عشق، ہمراہی اور ذمہ داری جیسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی ازدواجی زندگی نہ صرف دینی اور تاریخی لحاظ سے عظیم ہے، بلکہ ایک کامیاب، متوازن اور بابرکت ازدواجی نمونہ بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس شادی کا معیار مال، حسب و نسب یا سماجی مرتبہ نہیں بلکہ ایمان، تقویٰ اور اخلاقی اقدار تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علیؑ کو فاطمہؑ کے لیے منتخب کرتے وقت فرمایا: فاطمہ کو کفو اور ہمسر علی ہی ہوسکتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ایمانی ہم آہنگی کامیاب ازدواجی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ ایسے جوڑے جو فکری و روحانی لحاظ سے ہم خیال ہوں، زیادہ آسانی سے ازدواجی بحرانوں سے عبور کر لیتے ہیں اور دیرپا تفاہم حاصل کرتے ہیں۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کی زندگی میں باہمی محبت، بے پناہ احترام اور گہرا احساسِ ذمہ داری موجود تھا۔ حضرت علیؑ خود فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے کبھی فاطمہؑ کو ناراض نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے مجھے رنجیدہ کیا۔ جب بھی میں ان کی طرف دیکھتا، میرے غم دور ہو جاتے تھے۔ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک عظیم ازدواجی فلسفہ ہے۔ جذباتی ہمراہی، باہمی احترام و الفت اور ایک دوسرے کے لیے قوتِ قلبی بننا وہ عناصر ہیں جنہیں آج کی ماہرینِ نفسیات بھی کامیاب شادی کی علامات قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا گھر محض ایک ذاتی زندگی کا نمونہ نہ تھا، بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی تھا جو خودغرضی کے بجائے ایثار پر مبنی تھا؛ سختی اور تشدد کے بجائے تحمل و بردباری پر استوار تھا اور صرف ظاہری اور مادی خوشی پر توجہ دینے کے بجائے روحانی ترقی کا ذریعہ تھا۔ یہی وہ گھرانہ ہے جس میں ائمہ معصومینؑ جیسی بلند ہستیاں پیدا ہوئیں، جنہوں نے دنیا کو عدل، علم اور معنویت کی روشنی عطا کی۔

News ID 1933033

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha