مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی ڈیسک: حضرت زہراؑ کی شخصیت کا مطالعہ صرف سوگواری کی رسم نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور تاریخی ضرورت ہے۔ فاطمیہ صرف رسولؐ کی بیٹی کی مظلومیت کی یاد نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے حقیقی نمونہ عمل پر دوبارہ غور کرنے کا موقع بھی ہے۔ ایسا نمونہ جس کی ضرورت آج کے زمانے میں پہلے سے زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر میں نمونہ کسی خاص زمانے سے مخصوص یا ناقابل رسائی چوٹی نہیں، بلکہ ایک عملی معیار ہے جو انسان کی سوچ، کردار اور رویّے کی سمت بتاتا ہے۔ یہ وہ بلند مقام ہے جس کے قریب ہر انسان اپنی صلاحیت کے مطابق پہنچ سکتا ہے۔ یہ صرف تعریف و توصیف تک محدود نہیں بلکہ اس سے عملی رہنمائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؑ اسی حقیقی نمونے کی روشن مثال ہیں۔ آپؑ ایک ایسی رہنما ہیں جن سے نہ صرف خواتین بلکہ مرد، اور نہ صرف مسلمان حتی کہ غیرمسلم بھی اپنی فکری اور اخلاقی ترقی کی سمت متعین کرسکتے ہیں۔ ایسی زندگی جس میں خاندان، سماج، نسل کی تربیت، حق کے دفاع، عبادت، علم اور انصاف سب عناصر ہم آہنگ ہوکر موجود تھے۔
نسوانیت کے ساتھ تاریخی قیادت کی مثال
آج کے دور میں ایک اہم پہلو جسے زیادہ نمایاں کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنی مکمل نسوانی خصوصیات کے ساتھ تاریخ اور معاشرے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ عورت ہونا نہ سوچنے اور فیصلہ کرنے میں رکاوٹ ہے، نہ سماجی ذمہ داریاں اٹھانے میں، نہ جدوجہد کرنے میں، اور نہ ہی بڑے تاریخی موقع پر مؤثر کردار ادا کرنے میں مانع بنتا ہے۔ جناب فاطمہؑ نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ عورت اپنی نسوانیت برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک تاریخی تحریک کی رہنما بن سکتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے نہ جدید نظریات مکمل طور پر سمجھ سکے اور نہ قدامت پسند رویّے اس کا ادراک کر پائے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں خواتین کے حقوق کے دعویدار اکثر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ عورت کی سماجی سرگرمی کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے اسے اپنی نسوانیت چھوڑنی ہوگی یا اپنی اصل پہچان سے دور ہونا ضروری ہے۔ جبکہ سیرت فاطمی واضح کرتی ہے کہ نسوانیت اور عملی جدوجہد ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ دونوں مل کر انسانی اور سماجی پختگی کی بلند ترین مثال قائم کرسکتے ہیں۔
اس کے برعکس، تحجر پسند رویّے حضرت زہراؑ کے کردار کو محدود کردیتے ہیں۔ وہ آپؑ کی شخصیت کو صرف گھر اور گھریلو امور تک محدود دکھاتے ہیں، گویا ان کی سماجی موجودگی، فکری مزاحمت اور فاطمی جدوجہد ان کی زندگی کا حصہ ہی نہیں۔ یہ سوچ بھی حقیقت کے اہم پہلوؤں کو نظرانداز کرتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے بعض انتہاپسند نظریات خواتین کے حقوق کے نام پر حقیقت کا صرف ایک حصہ دکھاتے ہیں، اور نتیجتا مسلمان عورت کی تصویر ادھوری اور کمزور نظر آتی ہے۔
حضرت فاطمہؑ: ہر دور کے لیے مکمل اور رہنما نمونہ
فاطمی نمونہ عمل صرف دور پیامبرؐ تک محدود نہیں بلکہ اپنی انسانی اور روحانی گہرائی کی وجہ سے ہر دور میں مؤثر اور کارآمد ہے۔ دور حاضر کے دانشور بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ آج کی دنیا جو خواتین کی شناخت کے بحران کا شکار ہے، اسے ایک نیا، اصل اور مکمل «مسلمان خاتون» کا نمونہ چاہیے۔ ایسا نمونہ جو مغربی، میڈیا زدہ طرزعمل سے بدلنا ممکن نہ ہو۔
حضرت فاطمہؑ کا مقام جنسیت کی بحث سے بالاتر ہے اور وہ پوری دنیا کے آزاد فکر لوگوں کے لیے بھی رہنمائی کا معیار ہیں۔ موجودہ دور میں، امام زمانہؑ نے بھی ایک روایت میں حضرت فاطمہؑ کو اپنے لیے «اُسوۂ حسنة» قرار دیا ہے؛ یہ واضح کرتا ہے کہ فاطمی نمونہ نہ صرف مؤثر ہے بلکہ آخرالزمان میں انسان سازی کا معیار بھی ہے۔ حضرت فاطمہؑ سے الگو لینا صرف جذباتی ستائش یا رومانی روایات تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقی نمونہ عمل بنانے کے لیے ان کی زندگی اور سیرت کا جامع اور دقیق مطالعہ ضروری ہے۔ کسی ایک پہلو پر توجہ دے کر دیگر اہم ابعاد کو نظرانداز کرنا درست نہیں۔ اگر ہم صرف ان کے اجتماعی جهاد کی بات کریں اور نسل کی تربیت یا ان کی معنویت کو بھول جائیں، یا صرف ان کے غم و الم پر زور دیں اور حق و عدل کے لیے ان کے کھلے اور صریح مقابلے کو نظرانداز کر دیں، تو ہم ایک نامکمل اور تحریف شدہ تصویر پیش کریں گے۔
تاریخ میں مرد اور عورت کے لیے مجاہدت کا درس
فاطمی نمونہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود کو حضرت فاطمہؑ کے حالات میں قرار دے؛ ایسے حالات جو اگرچہ زمانے کے لحاظ سے مختلف ہیں، لیکن اپنی نوعیت میں ہر دور میں دہرائے جاتے ہیں۔ تحریف کے مقابل ذمہ داری اٹھانا، معاشرے میں شعور پیدا کرنا، حق کا دفاع کرنا، تبدیلی کی جدوجہد کرنا، ظلم کے سامنے مزاحمت کرنا، اور ساتھ ہی گھر کی ذمہ داری اٹھانا اور اولاد کی تربیت جاری رکھنا یہ وہ روحانی کردار ہے جو انسان کو ایک عام فرد سے ایک اخلاقی اور سماجی شخصیت میں بدل دیتا ہے۔
ان تمام پہلوؤں کو پروئے رکھنے والا سلسلہ وہ حقیقت ہے جسے ’’جهادِ فاطمی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد تھی جو حضرت فاطمہؑ کی پوری زندگی میں جاری رہی۔ اسلامی نقطہ نظر میں جهاد کا مطلب ایمان، عقلانیت اور فریضے کی بنیاد پر مسلسل اور تھکن سے پاک حرکت ہے۔ حضرت فاطمہؑ نے حق کے دفاع میں کبھی کوتاہی نہیں کی، نہ حمل کے دنوں میں، نہ سماجی دباؤ کے لمحات میں، اور نہ ہی ان لمحات میں جب ان کی جان کو خطرہ تھا۔
حضرت فاطمہؑ کی شبانہ تشییع اور تدفین، جو مظلومیت اور جدوجہد کا ایک عظیم تاریخی دستاویز ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ فاطمی تحریک حتی کہ شہادت کے بعد بھی جاری رہی اور جس نے ظلم کو رسوا کیا۔
آپ کا تبصرہ