14 جولائی، 2024، 5:19 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

کویت میں ماتم داری، اہل سنت برادری کا شیعوں سے تعاون، حکومت کی جانب سے پابندی

کویت میں ماتم داری، اہل سنت برادری کا شیعوں سے تعاون، حکومت کی جانب سے پابندی

کویت میں قدیم زمانے سے عزاداری کی رسم قائم ہے اور آل صباح خاندان کا عزاداری برپا کرنے میں اہم کردار ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک-الناز رحمت نژاد: کویت کے اندرونی علاقوں میں محرم الحرام کی آمد کے ساتھ سڑکوں پر ٹریفک میں اضافہ ہوتا ہے۔ الدسمہ، الدعیہ، الشعب، بنید القار، الصوابر، الرمیثیہ، السالمیہ، المنصوریہ، صباح السلام، الزھرا اور الشھدا میں امام بارگاہوں اور عزاخانوں کی بڑی تعداد موجود ہے اس وجہ سے عزاداری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔

عزاداروں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے عزاخانوں اور امام بارگاہوں کے اطراف میں لوگوں کا رش ہوجاتا ہے۔ بعض عزاخانوں میں دن میں تین مرتبہ ماتم داری ہوتی ہے اور مختلف زبانوں میں مجلس عزا برپا ہوتی ہے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں ماتم داری ہوتی ہے۔ عراق، لبنان، پاکستان اور ایران سے تعلق رکھنے والے اپنے علاقائی طریقوں کے مطابق عزاداری کرتے ہیں۔

کویت میں ماتم داری، اہل سنت برادری کا شیعوں سے تعاون، حکومت کی جانب سے پابندی

کویت میں بعض عزاخانوں میں خواتین اور مردوں کے لئے مشترک اور بعض میں جدا مجلس ہوتی ہے۔ بعض ماتمی انجمنوں اور تنظیموں کی جانب سے محرم الحرام کی آمد سے پہلے ہی مختلف مقامات اور سوشل میڈیا پر مجالس عزا کی تفصیلات جاری کی جاتی ہیں۔ مجالس عزا کے دوران کربلا کی زیارت سے مشرف نہ ہونے والوں کو سفر کا خرچہ دیا جاتا ہے۔

بعض انجمنوں کی طرف سے گذشتہ سالوں کے دوران ایک تجویز دی گئی جس کے تحت شب ہشتم محرم کو حضرت علی اصغر کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ سے یوم یتیم نام رکھا گیا اور مومنین یتیموں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

بعض عزاخانوں اور امام بارگاہوں میں پہلی محرم سے لے کر ماہ صفر کے اختتام تک مجلس عزا برپا ہوتی ہے جس میں حسینیہ رسول الاعظم الکربلائیہ، آل بوحمد، الصفار، آل معرفی، بی بی رباب، عاشور و مسلم بن عقیل شامل ہیں۔ ہر سال فارسی زبان میں مجلسوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

بھارتی اسماعیلی برادری کے زیراہتمام العارضیہ میں محرم الحرام کے دوران اردو زبان میں مجلس عزا ہوتی ہے۔ کویت میں مقیم اسماعیلی برادری کے 10 ہزار سے تعلق رکھنے شرکت کرتے ہیں۔

کویت میں ماتم داری، اہل سنت برادری کا شیعوں سے تعاون، حکومت کی جانب سے پابندی

کویت کے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ابلاغ کے ادارے مجالس اور عزادای کو بھرپور طریقے سے کوریج کرتے ہیں۔ میڈیا پر عزاداری کے پروگرام نشر کرنے کے لئے خصوصی ٹائم مختص کیا جاتا ہے۔ اخبارات اور جرائد میں محرم الحرام اور حضرت امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں خصوصی مضامین اور آرٹیکلز شائع کئے جاتے ہیں۔

بعض عزاخانوں میں زنجیر زنی کے بجائے خون کا عطیہ دیا جاتا ہے۔ بزرگ علماء محرم کے ایام میں مستحق مریضوں کے لئے خون عطیہ کرنے کی خصوصی نصیحت کرتے ہیں۔

مجالس اور جلوسوں کے دوران مختلف مقامات پر کیمپ لگاکر عزاداروں کے درمیان نیاز اور تبرک تقسیم کیا جاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی اور مشروبات کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

کویت میں ماتم داری، اہل سنت برادری کا شیعوں سے تعاون، حکومت کی جانب سے پابندی

کویت میں عزاداری اور مجلس عزا شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت برادری بھی نذر و نیاز اور تبرکات کا خصوصی اہتمام کرتی ہے۔ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام سے منسوب دن اور عاشورا کے موقع پر نیاز تقسیم کیا جاتا ہے۔

کویت میں شب عاشور کو شہداء کربلا کے سوگ میں لوگ پابرہنہ ہوکر سروں پر مٹی ملتے ہیں۔ سیاہ لباس زیب تن کرتے ہیں۔ شام غریبان کے موقع پر شمع روشن کرتے ہیں اور اپنی گاڑیوں پر سیاہ پرچم نصب کرتے ہیں۔

عاشورا کے دن علی الصبح مساجد، امام بارگاہوں اور عزاخانوں سے مصائب پڑھنے کی آوازیں آتی ہیں۔ لوگ ہاتھوں میں سیاہ پرچم لئے امام بارگاہوں اور عزاخانوں سے نکلتے ہیں۔ نماز ظہر کے فورا بعد مصائب پڑھا جاتا ہے۔

کویت میں عزاداری کی تاریخ پرانی ہے۔ کرونا کے ایام میں بھی عزاداری کا سلسلہ نہیں رکا تھا۔ کویت میں قدیم زمانے میں امام بارگاہ تعمیر کیا گیا تھا۔ خاندان آل صباح نے ابتدائی حسینیہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالیہ سالوں میں کچھ قوانین بناکر عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سال یکم محرم کو وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ امام بارگاہوں پر علم بلند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ محرم اور صفر کے دوران کیمپ لگانا ممنوع ہوگا اسی طرح شیعوں کو سرعام عزاداری برپا کرنے کے حوالے سے انتباہ جاری کیا گیا۔ حکومت کے اعلان کے باوجود کویت کے مرکزی امام بارگاہ پر سخت سیکورٹی میں علم مبارک نصب کرنے کی تقریب ہوئی۔

وزارت داخلہ نے نئے قوانین کا اعلان کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی دھمکی دی تھی۔ اعلان کے فورا بعد سیکورٹی فورسز نے علم اور پرچموں کو ضبط کرنے کے لئے کاروائی شروع کی جس کے بعد عوامی سطح پر سخت ردعمل نظر آیا۔ عوام نے سوشل میڈیا پر اس قانون پر سخت تنقید کی۔ ویڈیو کلپس میں لوگوں کے ہاتھوں میں حسینی پرچم نظر آئے جو حضرت امام حسینؑ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کررہے تھے۔

ایک شہری نے کہا کہ حکومتی عہدیدار سبیل اور کیمپ لگانے کی اجازت دینے سے گریز کررہے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں اجازت لینے جائیں تو یہی جواب دیتے ہیں کہ وزیرداخلہ سے رابطہ کریں۔ سابق وزرائے ان معاملات میں تعاون کرتے تھے اور زیادہ سختی نہیں کرتے تھے تاہم موجودہ کابینہ نے سخت پالیسی اپنائی ہے۔

کویت کے وزیر داخلہ فہد یوسف سعود الصباح نے اس سال عزاداری کی رسومات کو محدود کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ امام بارگاہوں اور عزاخانوں پر ایک سے زیادہ پرچم نصب کرنے سے منع کرنے کی وجہ سیکورٹی خدشات ہیں۔ ہم کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شیعوں کو اپنی حیثیت کا اظہار کرنے کے لئے کسی حد تک آزادی حاصل ہے۔

وزارت داخلہ کے اعلان پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ کویتی اعلی حکام شیعہ کمیونٹی کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ اہل تشیع برادری کویت کی قدیم ترین آبادی ہے جو ملک کی تشکیل میں برابر شریک ہے۔

News ID 1925400

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha