مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ بیرجند میں علی الصبح طلوع آفتاب سے پہلے ہی خیابان انقلاب کے اردگرد لوگ عزاداری کی تیاری کررہے ہیں جو سو سال سے یہاں کی پہچان ہے۔ اس مجلس کی بنیاد ایک تعلیم یافتہ خاتون نے رکھی تھی جس کا باپ عالم دین تھا۔ اسی وجہ سے حسینیہ اسی خاتون کے نام سے موسوم ہوا۔
حسینیہ قدیمی طرز تعمیر پر موجود حسینیہ کے راستے میں سقاخانہ بھی موجود ہے۔ مجمع میں اضافے کی وجہ سے گلیوں تک فرش بچھایا گیا ہے۔
زیارت عاشورا اور سلام کے ساتھ مجلس شروع ہوتی ہے۔ ہر کام میں خلوص جھلکتا ہے۔
حسینیہ کے متولی سید علی اصغری نے اس کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ آج سے تقریبا سو سال پہلے اہل معرفت اور عالم دین میر علی خراشادی کی بیٹی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف چلی گئی۔ انہوں نے اجتہاد تک تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایران واپس آنے کے بعد انہوں نے خواتین کے لئے کلاسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد اس حسینیہ کو عزاداری کے لئے وقف کیا گیا اور حسینیہ دختر آخوند کے نام سے معروف ہوا۔ اس کے بعد نسل در نسل یہاں عزاداری ہوتی رہی ہے اور عوام عقیدت کے ساتھ شرکت کرتے رہے ہیں۔
شروع میں بالائی طبقے میں خواتین کے لیے مجلس ہوتی تھی۔ خواتین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے باہر بھی فرش بچھایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صبح چھے تک مجلس ختم ہوتی ہے اور ملازمین بھی مجلس میں شرکت کرکے دفتر پہنچ سکتے ہیں۔ مساجد میں نماز پڑھنے والے بھی علی الصبح مجالس کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ مجالس کا سلسلہ یکم محرم سے عاشورا تک جاری رہتا ہے۔
مجلس کے لیے مخیرین نذر و نیاز کا اہتمام کرتے ہیں۔ حسینیہ میں قدیم زمانے سے شرکت کرنے والے بھی نیاز کے لئے چندہ دیتے ہیں۔ قدیمی مجلس ہونے کی وجہ سے مجلس میں خلوص پایا جاتا ہے اسی لئے شہر کے دور دراز کے علاقوں سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ