مہر خبررساں ایجنسی، صوبائی ڈیسک - مہدی بخشی سورکی: ایران کے مذہبی اور انقلابی شہر قم اور ملک کے دیگر شہروں کے عوام کی 15 خرداد (جون) کی بغاوت کا آغاز امام خمینی (رہ) کی گرفتاری کے بعد ہوا، یہ ایک ایسا قیام تھا ہے جو بالاخر امام خمینی (رح) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتج ہوا۔
اس تحریک کا آغاز شاہی رجیم کی طرف سے ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کے نفاذ سے ہوا، جس کی منظوری کے ساتھ ہی منتخب نمائندوں کے لئے اسلام کی شرط ختم کر دی گئی تھی اور حلف اٹھانے کے لئے کسی بھی مقدس کتاب کی شرط لاگو کی گئی تھی۔
اس منصوبے کے ذریعے پہلوی رجیم نے دوسرے اسلام مخالف منصوبوں کے نفاذ کے لیے ایرانی معاشرے بالخصوص علماء اور مذہبی لوگوں کے رد عمل اور حالات کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا تھا تاہم امام خمینی (رح) اور مراجع تقلید کی شدید مخالفت اور سخت عوامی ردعمل کی وجہ سے طاغوتی رجیم اس پر عمل درآمد سے دستبردار ہوگئی۔
ایک طرف حکومت کی لگاتار ناکامیوں اور دوسری طرف امریکی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے اصرار پر پہلوی حکومت نے امریکی اصلاحات پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا جسے سفید انقلاب کہا جاتا ہے۔
طاغوتی حکومت نے اس معاملے پر ریفرنڈم کروا کر عوام کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس بار علماء اور حکام نے اس کی مخالفت کی۔ چونکہ امام راحل اس منصوبے کے نتائج سے واقف تھے جس کی وجہ سے ملک پر امریکہ کا تسلط قائم ہوا تھا، اس لیے انہوں نے اپنی تقریروں اور اعلانات کے ذریعے عوام کو حکومت کے خلاف عوامی قیام کی دعوت دی۔
پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے عجلت بازی میں وحشیانہ کارروائی کرتے ہوئے 24 مئی 1963ء کو امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر مدرسہ فیضیہ پر حملہ کر کے طلباء کو شہید کر دیا۔
اس کارروائی کے جواب میں امام راحل نے ایک بار پھر حکومت کی مذہب دشمن پالیسیوں پر اپنی نارضایتی کا اعلان کیا اور اسی سال جون کے وسط میں پہلوی حکومت کی اسلام دشمن پالیسیوں کے خلاف اپنے احتجاج کا اعلان کیا جس سے ماحول میں تناؤ پیدا ہوا اور قم، تہران اور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔
مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی کی زبردست تقریر اور آپ کی گرفتاری
اس تاریخی تقریر میں امام نے پہلوی رجیم اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو برملا کرتے ہوئے محمد رضا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے والد رضا خان کے انجام سے عبرت لیں۔
امام خمینی (رح) نے فرمایا: "اسرائیل اس ملک میں علمائے دینی کے وجود کو برداشت نہیں کرتا، اسرائیل اس ملک میں دانشوروں کو نہیں چاہتا، اسرائیل نے اپنے ایجنٹوں سے مدرسہ فیضیہ میں خون خرابہ کرایا ، وہ ہمیں مار رہا ہے، وہ آپ (عوام) کو مار رہا ہے۔ وہ آپ کی معیشت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور آپ کی تجارت اور زراعت کو تباہ کرنا چاہتا ہے، وہ حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اسرائیل اپنے ایجنٹوں کے ذریعے رکاوٹوں کو ہٹانا چاہتا ہے، قرآن اس کے راستے کی سب بڑی رکاوٹ ہے اسے ہٹانا چاہتا ہے، علما اس کے راستے کی رکاوٹ ہیں، اسی طرح مدرسہ فیضیہ اور دیگر دینی علوم کے مراکز اس کے راستے میں رکاوٹ ہیں، لہذا انہیں قتل کرنا ہوگا تاکہ اسرائیل اپنے مفادات حاصل کر سکے، ایرانی حکومت اسرائیل کے اہداف اور منصوبے کی پیروی میں ہماری(قوم) توہین کر رہی ہے۔
حضرت امام نے یہ بھی بیان کیا: "آج مجھے اطلاع ملی کہ تہران کے بعض مبلغین اور واعظین کو سیکورٹی اداروں نے اٹھا لیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ وہ تین مسائل پر بات نہ کریں: 1) شاہ کو برا نہ کہیں۔" 2) اسرائیل پر حملہ نہ کریں۔ 3) انہیں "اسلام خطرے میں ہے" نہیں کہنا چاہئے اس کے علاوہ وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔
امام خمینی نے کہا: ہمارے تمام اختلافات ان تینوں مسائل میں مضمر ہیں۔ اگر ہم ان تینوں باتوں کو نظر انداز کر دیں تو ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہتا اور یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ اسلام خطرے میں ہے تو کیا خطرے میں نہیں ہے؟ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ بادشاہ فلاں ہے تو کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ اسرائیل اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے تو کیا وہ خطرناک نہیں؟ اور بنیادی طور پر، شاہ اور اسرائیل کے درمیان آخر کونسا رشتہ پایا جاتا ہے کہ سیکورٹی ایجنسی کہتی ہے کہ شاہ کے بارے میں بات نہ کرو، اسرائیل کے بارے میں بھی بات نہ کرو؟ کیا سکیورٹی ایجنسی کے خیال میں شاہ ایک اسرائیلی بادشاہ ہے؟ کیا سیکورٹی ادارے کے خیال میں بادشاہ یہودی ہے؟
طاغوتی رجیم کے کارندوں کے ہاتھوں امام خمینی (رح) کی گرفتاری کے بعد 15 خرداد کی عوامی بغاوت کا آغاز
اس تقریر کے بعد جو طاغوت حکومت کے لئے بہت بھاری تھی، 5 جون 1963ء کی شب پہلوی گارڈ کے متعدد کمانڈوز، چھاتہ بردار اور مسلح سپاہیوں نے قم میں داخل ہو کر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور انہیں فجر کے وقت گرفتار کر کے تہران منتقل کر دیا گیا۔
لوگوں کو امام راحل کی گرفتاری کی اطلاع ملنے کے بعد تہران کا بازار بند کر دیا گیا اور تہران اور دوسرے شہروں میں لوگ سڑکوں پر آ گئے اور یوں 15 خرداد کا قیام شروع ہوا۔
قم کے لوگ جنہیں اس خبر کا علم دوسرے شہروں سے پہلے ہوا وہ امام کے گھر کے سامنے جمع ہوئے اور امام کے بڑے فرزند آیت اللہ سید مصطفی خمینی کے ساتھ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کی طرف بڑھے۔ جہاں آیت اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی نے دیگر مراجع تقلید اور قم کے جید علماء کے ساتھ مل کر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں طاغوتی حکومت کی جانب سے امام راحل کی گرفتاری کو ایک مذموم اقدام قرار دیا گیا۔
اس اجتماع میں سید مصطفی خمینی نے اپنے خطاب میں امام کی گرفتاری کا واقعہ بیان کیا جس کے بعد "یا موت یا خمینی" کا نعرہ گونج اٹھا۔ لوگ سڑکوں پر آگئے جہاں سیکورٹی فورسز اور فوجی دستوں سے جھڑپ ہوئی جس میں متعدد شہید اور زخمی ہوئے۔
قم اور ایران کے دیگر شہروں سے اٹھنے والی 15 خرداد تحریک کے نتائج
15 خرداد کو قم اور ایران کے دیگر شہروں کے عوام کے قیام کی کامیابیوں نے شاہی رجیم اور عوام کے درمیان گہرے تعلق کے دعووں کو برملا کردیا۔
ایرانی قوم کی یہ خونی اور تاریخی تحریک خاکستر کے نیچے سلگتی چنگاری کی طرح تھی جو 22 بہمن 1357 (11 فروری 1979) کو اسلامی انقلاب کی فتح کا پیش خیمہ بن گئی۔
15 خرداد کے قیام کو ایران کی تاریخ کے ان عجیب واقعات میں سے ایک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو طاغوتی حکومت اور دیگر عالمی طاقتوں کی شکست و رسوائی کا باعث بنا اور یہ واقعہ ایران کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا جو در حقیقت ایرانی قوم کے طاغوتی حکومت کے خلاف قیام اور امام راحل کی تحریک کی حتمی فتح کی نوید تھا۔
امام خمینی نے خرداد 15 کو ایام اللہ کہتے یوئے اس دن کو قومی قیام کے بجائے ایک قرآنی اور اسلامی قیام قرار دیا جس سے لوگوں میں جذبہ شہادت پروان چڑھا۔
امام خمینی (رح) نے 15 خرداد کو ایران کی تاریخ کا ایک عظیم نقطہ آغاز قرار دیتے ہوئے اس کے تحفظ پر تاکید کی اور ان کے نقطہ نظر سے 15 خرداد کے تاریخی قیام نے سامراجی جبر اور استبداد کے افسانے کو پاش پاش کر دیا اور اس دن کے شہداء کے خون نے آنے والی نسلوں کے لیے قیام کی راہ ہموار کی اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
5 جون 1963 کے اخبارات کی شہ سرخیاں اور تصاویر
آپ کا تبصرہ