مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء کے صیہونی رجیم کے خلاف مظاہرے تیسرے ہفتے بھی جاری ہیں اور غزہ میں اس رجیم کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کرنے والے صیہونی اداروں کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ اب تک اس ملک کی پولیس نے احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف آنسو گیس اور اسٹن گنز کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔
امریکہ کے درجنوں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، نیویارک کی سٹی یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی، غزہ میں امن کی حمایت کرنے والے طلبہ کارکنوں کا مرکز بن گئی ہے۔
نیو یارک یونیورسٹی کے سٹی کالج کے طلباء نے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر دھرنے کے دوران احتجاج کرنے والے طلباء میں سے ایک کی پرتشدد گرفتاری کو روکنے کے لئے سوشل میڈیا صارفین کی توجہ مبذول کرائی۔
اس سلسلے میں انگریزی زبان کے روزنامہ تہران ٹائمز نے ان مظاہروں کے دو مرکزی منتظمین کے ساتھ ایک انٹرویو کیا، جنہوں نے انتقامی اقدامات کے خوف کے باعث اپنے فرضی ناموں (حدیقہ اور "سارہ) کے ساتھ انٹریو دینے کی حامی بھری ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تہران ٹائمز: سب سے پہلے، فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلبا کی عمر، مذہب اور نسلی تنوع کے بارے میں تفصیل سے بتا دیں۔
نیو یارک کے سٹی کالج میں احتجاج کرنے والے طلباء، مختلف وابستگیوں اور پس منظر کے ساتھ ان مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں۔ وہ سٹی یونیورسٹی آف نیویارک کی مختلف فیکلٹیوں سے آتے ہیں۔ 25 فیکلٹیز کے 500,000 سے زیادہ طلباء پر مشتمل یونیورسٹی کو امریکہ کی سب سے بڑی شہری پبلک یونیورسٹی سمجھا جاتا ہے۔ سٹی کالج ان کالجوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہڑتالوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
فیکلٹی ممبران بھی احتجاج میں شامل ہوئے اور ان کی حمایت اور رہنمائی سے انہوں نے انڈر گریجویٹ طلباء کو تحریک کی قیادت کرنے کی اجازت دی۔
ان مظاہروں میں 18 سے 80 سال کی عمر کے افراد شریک ہیں۔ سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک کا طلبہ کا ادارہ انتہائی متنوع اور کثیر القومی ہے جس کے رکن امریکی سامراج سے متاثر ممالک کے طلبہ اور اسلامی دنیا کے طلبا بھی ہیں۔ تاہم ان مظاہروں میں ایشیا، لاطینی امریکہ، جنوبی ایشیا اور عرب ممالک کے طلبہ بھی شریک ہیں۔
مذہبی عقائد (اسلام، یہودیت اور عیسائیت) بھی بہت سے طلباء کے لیے احتجاج میں حصہ لینے کا محرک ہیں۔ لیکن سیکولر طلباء کی ایک بڑی تعداد آباد کاروں کے تشدد اور سامراج کے خلاف احتجاج کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔
فلسطین نے ہمیں دنیا بھر کی ہر قسم کی مذہبی، سیاسی اور نسلی پالیسیوں (عرب، یہودی، سفید، سیاہ، لاطینی، جنوبی ایشیائی وغیرہ) کے خلاف متحد کیا ہے۔
یونیورسٹی حکام کا اب تک اس احتجاج پر کیا ردعمل سامنے آیا ہے؟
یونیورسٹی نے سکیورٹی گارڈز بھیجے ہیں جو طلباء کے ساتھ جارحانہ سلوک کرتے ہیں۔ احتجاج کے پہلے دن، ایک ایجنٹ کا ایک طالب علم سے جھگڑا ہوا اور پھر طلبہ کے ایک گروپ نے اس ایجنٹ کو یونیورسٹی کے صحن سے باہر دھکیل دیا۔ اس واقعے کی ویڈیو امیجز ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا میں شائع کردی گئیں جس یہ ثابت ہوا کہ یونیورسٹی اپنے طلباء کی صحت کو ترجیح نہیں سمجھتی۔ لہذا سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے، ہم صرف اپنے آپ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں!
اس کے علاوہ ہڑتالوں کے جواب میں یونیورسٹی نے عمارتیں بھی بند کر دی ہیں۔ یہ عمل صحت کے مسائل کو بڑھاتا ہے اور طلباء کے حقوق پامال کرتا ہے کیونکہ کیمپس کے اخراجات ان کی ٹیوشن فیس سے ادا کیے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ صہیونی لابی کا ہماری یونیورسٹیوں پر کس قدر اثر و رسوخ ہے۔ جب کہ یہ ایک عوامی یونیورسٹی ہے جس سے عوام کے سامنے جوابدہ ہونے اور عوام کے ساتھ ہونے کی توقع کی جانی چاہئے۔ ہماری یونیورسٹی کی انتظامیہ صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرنے والی کمپنیوں میں 8.5 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ عطیہ دہندگان، سیاست دانوں اور صیہونی ایجنٹوں کو مطمئن کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں۔ یہ اندھا دفاع ظاہر کرتا ہے کہ صہیونی جارحیت کے خلاف احتجاج اور ان مظاہروں کو دبانا ہمارے کالج کے ٹرسٹیز اور انتظامیہ کے لئے کتنا اہم ہے۔
کیا پولیس نے پرتشدد مداخلت کی ہے؟
پولیس نے مظاہرین کے گرد باڑ لگا دی ہے اور ان کے اوپر ڈرونز اور ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔ پولیس اور صیہونی حکومت ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کی طاقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن جب تک بہادر فلسطینی عوام صیہونی تشدد کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے ہمیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو استعمار اور قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے اور ہمارا بھی یہ فریضہ بنتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
آپ یونیورسٹی سے کیا چاہتے ہیں؟
طلباء کے پانچ مطالبات ہیں:
1- صہیونی رجیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی میں کسی بھی طرح سے شریک امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری بشمول ہتھیاروں، ٹیکنالوجی، جاسوسی اور تعمیرات کی تیاری میں سرمایہ کاری سے روکنا۔
2- اسرائیل کے تمام تعلیمی دوروں بشمول برتھ رائٹ، فل برائٹ اور "پرسپیکٹیو" ٹرپس پر پابندی لگانا، اسرائیلی تعلیمی اداروں کے ساتھ کسی بھی تعاون کی تقریبات، مشترکہ سرگرمیاں، معاہدے اور تحقیقی تعاون کی منسوخی۔
3- فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی اور اسرائیل قبضے سے رہائی دلانے کے حق کا مطالبہ؛ سٹی یونیورسٹی آف نیویارک کے ان طلباء اور ملازمین کا تحفظ جو غزہ کے شہریوں کی نسل کشی کے خلاف فلسطین کی آزادی کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں۔ نیز فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی پر برطرف کیے گئے پروفیسرز کو عہدوں پر برقرار رکھا جائے۔
4- سٹی یونیورسٹی آف نیویارک اور ہارلیم سے فوجی دستوں کا انخلا، بشمول اسرائیلی قابض افواج کے ساتھ ساتھ نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا سٹی یونیورسٹی کے تمام کیمپس سے فوری انخلا۔ سامراجی اداروں جیسے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (CIA)، ڈپٹی ہوم لینڈ سیکیورٹی اور ٹیکٹیکل آپریشنز ٹریننگ سینٹر (TOTC) وغیرہ میں صیہونیوں کے ساتھ تعاون، تربیت اور انہیں ملازمت فراہم کرنے کے عمل کی روک تھام۔
کیمپس سے تمام امریکی سامراجی علامتوں کو ہٹانا اور کولن پاول بلڈنگ کا نام بدل کر شکور موریلز رکھ دینا۔
5- نیو یارک یونیورسٹی میں ایک شہری فیکلٹی کا قیام، جس کے اخراجات مکمل طور پر ٹیوشن فیس سے معاف اور صیہونی اور سامراجی عطیہ دہندگان سے آزاد ہوں۔ نیز یونیورسٹی ملازمین کا تحفظ اور یونین میں منصفانہ معاہدوں کے اختتام کی حیثیت کو بحال کرنا۔
کیا یونیورسٹی نے کبھی بات چیت کے ذریعے آپ کے خدشات اور درخواستوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے؟
یونیورسٹی انتظامیہ سے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں لیکن اس میں کوئی خیر سگالی نظر نہیں آ رہی۔ اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود، ہمیں ابھی تک یونیورسٹی کے صدر Felix Matos Rodríguez سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی ہے۔ خراب موسمی حالات میں خیمے کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی ہماری درخواست بھی مسترد کر دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ایک نوجوان مسلم طالب علم کو بغیر کسی جواز کے گرفتار کیا گیا اور اس پر ہڑتال کے پہلے دن دیوار پر گرافٹی پینٹ کرنے کا الزام ہے۔ اس الزام کے نتیجے میں اسے چار سال قید ہو سکتی ہے! ہم نے اسے ان تمام الزامات سے بری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جب تک یونیورسٹی انتظامیہ ہمارے ساتھ ایسا توہین آمیز سلوک جاری رکھے گی تب تک ہم مذاکرات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ طلباء آخر کار وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکیں گے؟
یقیناً، طلباء اس ملک کا مستقبل ہیں اور امریکہ کی تاریخ میں سب سے اہم سماجی تبدیلیاں یونیورسٹیوں کے صحنوں سے پھوٹ پڑی ہیں۔
صیہونی حکومت کے خلاف نفرت کی لہر شروع ہو چکی ہے اور ہمارا اس نسل کشی میں شرکت سے انکار اس کا واضح ثبوت ہے۔
اگر طلبہ کے احتجاج کا جواب تشدد اور طاقت سے دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس مسئلے سے بخوبی واقف ہیں اور طلبہ تحریک سے خوف زدہ ہیں۔ جو چیز انہیں سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور فلسطین کا مسئلہ ہمارے لیے ہر چیز سے زیادہ اہم ہے۔ ہم اظہار رائے کی اس جنگ میں ہرگز شکست نہیں کھائیں گے بلکہ یقینا کامیاب ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ