مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، روزنامہ رائ الیوم کے سینئر عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے جوابی آپریشن " وعدہ صادق" کے حوالے سے پیدا ہونے والے بعض شکوک و شبہات پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عبد الباری عطوان نے اپنے مضمون میں لکھا: وہ لوگ جو گذشتہ 7 ماہ کے دوران طوفان الاقصیٰ آپریشن میں فلسطینی مزاحمت کے جنگی کارناموں کو تسلیم نہیں کرتے، وہی لوگ آج مقبوضہ علاقوں پر ایران کے تاریخی حملے کی کامیابیوں کے حوالے سے تردید و عناد کا شکار ہیں۔ جب کہ اس کاروائی میں ایران کے 360 میزائلوں اور ڈرونز نے صحرائے نقب میں صیہونی حکومت کے دو فوجی اڈوں کو تباہ کر دیا۔
انہوں نے مزید لکھا: یہ وہی لوگ ہیں جو اسرائیل کو خطے کی سب سے بڑی طاقت سمجھتے تھے اور یہ سوچ بیٹھے تھے کہ تل ابیب دو ہفتوں میں غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔ انہی لوگوں نے دمشق میں قونصل خانے پر حملے کے حوالے سے ایران کے ردعمل پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا لیکن جب یہ حملہ کیا گیا تو انہوں نے اسے ایک پروپیگنڈہ شو اور ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کی کارستانی سمجھا۔ البتہ ان کا یہ خیال ان کے بغض اور عناد کو واضح کرتا ہے۔
اس سینئر علاقائی تجزیہ کار نے مخالفین کے جھوٹے دعوؤں کے جواب میں ایرانی حکام کے بیانات کا حوالہ دیا جنہوں نے اس حملے کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملے کا جوابی ردعمل قرار دیا اور اسے فلسطین کی آزادی کی راہ میں کاروائی قرار نہیں دیا بلکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس حملے میں مطلوبہ اہداف حاصل کئے گئے اور مشن مکمل ہوگیا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا: صیہونی حکومت کے دو فوجی اڈوں پر ایران کے حملے میں کوئی اسرائیلی شہری یا بچہ ہلاک نہیں ہوا اور یہی انسانیت اور اخلاقیات کے لحاظ سے اسرائیل اور ایران کے درمیان بہت بڑے فرق کو واضح کرتا ہے۔
عطوان کے مطابق، ایران کے جوابی ردعمل نے ایک طرف غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا تو دوسری طرف صہیونی جارح اور غاصب رجیم کو دھول چٹا دی ہے اور عملی طور پر ثابت کر دیا کہ غزہ تنہا نہیں ہے بلکہ ایک بڑی اسلامی طاقت اس کے ساتھ کھڑی ہے، ایک ایسی طاقت جو صیہونی حکومت کو سزا دینے کی صلاحیت اور ہمت رکھتی ہے۔
عبد الباری عطوان نے اپنے مضمون میں لکھا کہ فلسطینیوں کی استقامت، غزہ میں زبردست مزاحمت اور ایران کے حالیہ حملے نے ثابت کہ گزشتہ 75 برسوں میں پہلی بار طاقت کی مساواتیں مزاحمتی محور کے حق میں بدلی ہیں۔
اس سینئر عرب مضمون نگار نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کی کارروائیوں پر صیہونی حکومت کا کوئی بھی ردعمل غالباً صیہونی رجیم کے خاتمے کا آغاز ہو گا، کیونکہ ایرانیوں کی طرف سے تیار کیے گئے بڑے سرپرائز نیتن یاہو اور اس کے آباد کاروں کے منتظر ہیں اور ایرانی ردعمل اس سے کہیں زیادہ مضبوط اور تباہ کن ہوگا ۔ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس قوتیں پچھلے چھے ماہ سے امریکہ کی مکمل حمایت کے باوجود فلسطین میں حماس اور اس کے ہمنوا گروہ کے خلاف ناکام رہیں، ایسے میں وہ ایران جیسی بڑی علاقائی طاقت کو کیسے شکست دے سکتے ہیں؟
آپ کا تبصرہ