24 جنوری، 2024، 3:31 PM

ادارہ اسلامی تبلیغات ایران کے سربراہ کا مودی حکومت کے اقدام پر شدید ردعمل:

بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر بھارت کی تاریخ اور مسلمانوں پر ظلم ہے

بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر بھارت کی تاریخ اور مسلمانوں پر ظلم ہے

حجت الاسلام والمسلمین محمد قمی نے کہا ہے کہ تاریخی بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر کی تعمیر کرکے بھارتی حکومت تاریخ کو مسخ اور مسلمانوں پر ظلم کررہی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی حکومت کی جانب سے ایودھیہ میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ ہندو عبادت گاہ مندر کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی کی انتہا پسند حکومت نے ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیہ میں مسلمانوں کی تاریخی مسجد بابری مسجد کو منہدم کرنے کے بعد اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا شروع کیا ہے۔

ادارہ تبلیغات اسلامی کے سربراہ حجت الاسلام محمد قمی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ آج تاریخی مسجد کو منہدم کرکے اس کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ شدت پسند ہندووں نے تیس سال پہلے اس تاریخی مسجد کو شہید کردیا تھا۔ مسجد پر حملے کے دوران 2000 مسلمان شہید ہوگئے تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی سال مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ اس ظلم اور ناانصافی کے حوالے سے سکوت اختیار کرنے کے بجائے صدائے احتجاج بلند کریں۔

تاریخی بابری مسجد 1529 میں ظہر الدین محمد بابر کے حکم سے ایودھیا میں ان کی طرف سے متعین حاکم میر باقی اصفہانی نے تعمیر کی تھی۔ مسجد کے دونوں مرکزی دروازوں اور ممبر کے اوپر فارسی میں اشعار لکھے ہوئے ہیں جن پر مسجد کے سال تعمیر کے حوالے تحریر کیا گیا ہے کہ اس مسجد کی بنیاد 935 ہجری میں رکھی گئی۔

برصغیر پر برطانوی راج کے دوران مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان اختلافات ایجاد کرکے اپنی حکومت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے انگریزوں نے بابری مسجد کے بارے میں اختلافات ایجاد کئے۔

1855 میں برطانوی افسر نے حکومتی اسناد میں تفرقہ انگیز سند لکھی کہ 935 ہجری میں بابر کی آمد کے موقع پر اس مقام پر مسجد تعمیر کرکے بابری نام رکھا گیا جبکہ اس سے پہلے اس مقام پر ہندووں کا معبد موجود تھا۔ اس وقت مسجد کے بعض حصے ہندوں کے استعمال میں تھے۔ انگریز افسر کے اس اقدام کے نتیجے میں دونوں فریقوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور سالوں تک تصادم کے واقعات پیش آئے۔

1980 میں بھارتی انتہاپسند پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اس جگہ کو مسلمانوں کے قبضے سے چھڑاکر اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرے گی۔ موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کا تعلق بھی اسی سیاسی پارٹی سے ہے۔

1992 میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک ٹولی نے مسجد پر حملہ کرکے اس کو شہید کردیا۔ اس موقع پر تصادم کے نتیجے میں 2000 مسلمان شہید ہوگئے۔

پورے عالم اسلام میں اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے علاوہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نرسما راؤ سے ملاقات کے دوران مسجد کی تاریخ اور مسلمانوں کے نزدیک تاریخی حیثیت و اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بھارتی مسلمان بھارتی کے دوسرے شہریوں کی طرح ہیں تاہم بابری مسجد کی شہادت سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم پر زور دیا تھا کہ مسجد کو فوری تعمیر کی جائے۔

آج تیس سال گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں کو تشویش ہے کہ ہندوؤں کے اس انتہاپسندانہ اقدام سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

یاد رہے  کہ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ہندو جماعت کے چار اہم رہنما موجود نہیں تھے۔ علاوہ از این بھارت کی اپوزیشن کی پارٹیوں نے بھی تقریب کا بائیکاٹ کررکھا تھا۔ سب سے بڑی سیاسی پارٹی کانگرس نے وزیراعظم مودی پر الزام لگایا ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مذہب کا کارڈ استعمال کررہے ہیں۔

News ID 1921456

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha