مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: کے مطابق علاقائی اسٹریٹجک امور کے تجزیہ کار اور الزیتونہ اسٹڈی سینٹر کے سربراہ محسن صالح نے عربی نیوز سائٹ 21 پر اپنے ایک مضمون میں صیہونی حکومت کی غزہ جنگ میں ناکامی اور اس کے بحرانوں کی متعدد جہتوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگرچہ غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ جرائم کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے اور غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی، لیکن ان واقعات نے بڑھتے ہوئے سیاسی، فوجی، داخلی اور خارجی بحرانوں کو مزید ہوا دی۔
انہوں نے اس مضمون میں غزہ جنگ کے نتیجے میں صیہونی حکومت کو درپیش آٹھ سنگین بحرانوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
پہلا: جنگ کے بیان کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی
صیہونی حکومت نے حماس کو تباہ کرنے اور غزہ کو اسرائیل کے لیے محفوظ علاقے میں تبدیل کرنے اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے باشندوں کو ہجرت کرنے کے لیے غزہ پر حملہ کرنے کے اپنے اہداف کا اعلان کیا تھا۔
اگرچہ صیہونی حکومت نے غزہ میں فلسطینیوں کا بے پناہ قتل عام کیا ہے، لیکن اس جارحیت کو 100 دنوں سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم صیہونی رجیم کوئی ایک بھی بیان کردہ جنگی ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ جب کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ پوری طاقت کے ساتھ مقاومت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوسرا: صیہونی رجیم میں واضح وژن کا فقدان
اسرائیلی حکومت اس وقت واضح وژن اور ورک پلان کی کمی کا شکار ہے، خاص طور پر جنگ کے بعد غزہ کی صورت حال کے تناظر میں رسوائی کے ساتھ انخلاء یا پھر جنگ جیتنے کا ڈرامہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
بہت سے صیہونی تجزیہ نگاروں کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے پاس جنگ کو جاری رکھنے کا کوئی خاص وژن نہیں ہے اور وہ اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی۔ اس طرح صیہونی حکومت کی انتہاپسند کابینہ شکست کے دہانے پر ہے اور میدان جنگ کے حقائق کے ساتھ اچھا تعامل نہیں کر سکتی۔
نیتن یاہو کی دائیں بازو کی کابینہ کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے علاوہ، گیڈی آئزن کوٹ اور بینی گینٹز کے بیانات اور فوجی کارروائیوں کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج بھی حال ہی میں اس عمل میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی کابینہ کے جنگی وزیر یوو گیلانٹ نے بھی مقبوضہ علاقوں کی سیاسی انتظامیہ کی جانب سے فیصلے کرنے میں تاخیر پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اس تاخیر سے فوج کی فوجی کارروائیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرتسی حلاوی نے بھی دعویٰ کیا کہ یہ عدم استحکام غزہ میں فوج کی کامیابیوں کو تباہ کر دے گا اور حماس کی طاقت میں اضافہ ہو گا کہ وہ شمالی غزہ میں اپنی افواج کو دوبارہ منظم کر سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں صیہونی رجیم کی ایک بدصورت اور نفرت انگیز تصویر سامنے آ رہی ہے جب کہ دنیا کی رائے عامہ حماس کی طاقت بن چکی ہے۔
تیسرا: فوجی ہلاکتوں اور معاشی نقصانات میں ہوشربا اضافہ
صیہونی حکومت کو 7 اکتوبر کو مزاحمتی گروہوں کی طرف سے ملنے والے خوفناک دھچکے کے علاوہ جنگ کے دوران ہونے والے بے پناہ جانی اور معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ صیہونیوں نے ہمیشہ اس جنگ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ آباد کاروں کی رائے عامہ پر اس کے اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔ لہٰذا مقبوضہ علاقوں سے شائع ہونے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کے فوجی دستوں کی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے جب کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات اور اخراجات 50 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں جس کے نتیجے میں سیاحتی سرگرمیاں بند کر دی گئ ہیں۔
چوتھا: صیہونیوں کی نقل مکانی اور الٹی ہجرت
جنگ کے باعث غزہ کی پٹی کے سرحدی مقبوضہ علاقوں کے شمال میں بھی بدامنی کے پھیلاؤ کے سبب پانچ لاکھ سے زیادہ صیہونی آباد کار اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اپنے تحفظ کا احساس کھو بیٹھے ہیں۔
اس کے علاوہ دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اڑھائی لاکھ سے زائد صیہونی آباد کار مقبوضہ علاقوں سے فرار ہو کر دوسرے ممالک جا چکے ہیں۔ یہ رجحان اس بحران کی حقیقی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے جس کا سامنا صیہونی حکومت نے اپنے باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کیا ہے۔
پانچواں: سیاسی بحران
7 اکتوبر کو ہونے والے آپریشن اور اس میدان میں صیہونی حکومت کی ناقص کارکردگی سے صیہونیوں کو جو صدمہ پہنچا ہے وہ مقبوضہ علاقوں میں داخلی سیاسی بحران کے پھیلنے کا سبب بنا ہے۔
اگرچہ صیہونی آبادکار فلسطینیوں سے انتقام لینے اور اپنے لیے سکیورٹی کا بندوبست کرنے کی بڑی خواہش رکھتے ہیں، لیکن اس جنگ کے میکنزم، غزہ کی پٹی کے مستقبل اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے طریقوں کے بارے میں بہت سے اختلافات موجود ہیں جہاں عالمی برادری کے دباؤ کے ساتھ صیہونی حکومت کے فیصلہ سازوں میں بھی شدید انتشار پایا جاتا ہے جو صیہونی رجیم کے سیاسی بحران کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔
چھٹا: صیہونی رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو روکنا
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نتائج ان حکومتوں کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہوئے جنہوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ہے۔ یوں تو صیہونی حکومت کے لیے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا معمول پر آنا بہت ضروری ہے، لیکن غزہ کی جنگ کا عمل عرب حکومتوں کے لیے اس عمل کے اخراجات میں اضافہ کرتا ہے۔ کیونکہ جب عرب اقوام کی اکثریت غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ہے، عرب بادشاہتوں کا اس رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا غزہ کی پٹی اور فلسطین میں صیہونی حکومت کی بربریت میں شرک ہونے کے مترادف ہے۔
ساتویں: بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ اور صیہونی حکومت کا بے نقاب ہونا
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت نے اس حکومت کے خلاف ایک زلزلہ پیدا کر دیا اور اسرائیل کا وحشی چہرہ سب کے سامنے آشکار ہوا ہے۔ حالانکہ اس پہلے صیہونی حکومت کو دنیا کے سامنے جمہوری ظاہر کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔ اس طرح اس جنگ کے نتیجے میں فلسطینیوں نے میڈیا کی جدوجہد کے ذریعے بین الاقوامی یکجہتی حاصل کی جب کہ اس مسئلے نے نہ صرف صیہونی حکومت کی تنہائی میں اضافہ کیا۔ بلکہ اس رجیم اور اس کے اتحادیوں پر جنگ کے خاتمے اور جرائم کی شدت کو کم کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور یہی دباؤ بالآخر صیہونی رجیم کی جارحیت کے خاتمے اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے بغیر غزہ سے انخلاء کا باعث بنے گا۔
آٹھویں: حماس کی مقبولیت میں اضافہ
بہت سے عرب اور بین الاقوامی ممالک حتیٰ کہ حماس کے دشمن اور حریف بھی سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کو تباہ کرنا ممکن نہیں ہے، خاص طور پر اس کی موجودہ جنگی کارکردگی کے بعد تو اس کے خاتمے کے امکانات مکمل معدوم ہوگئے ہیں۔
جب کہ حماس کی جنگی کارکردگی اور صیہونی حکومت کو بھاری نقصان پہنچانے سے مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس جنگ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک حماس اور فلسطینی عوام کے درمیان خاص طور پر غزہ کی پٹی میں جدائی نہیں ڈالی جا سکتی ہے اور اگر فلسطین میں آزادانہ اور صحت مند انتخابات منعقد ہوئے تو حماس ان انتخابات کی فیصلہ کن فاتح ہوگی۔
آپ کا تبصرہ