20 جنوری، 2024، 6:57 PM

ایران کا اربیل پر صیہونیوں کے خلاف حملہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے، سینئر عراقی تجزیہ کار

ایران کا اربیل پر صیہونیوں کے خلاف حملہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے، سینئر عراقی تجزیہ کار

ایک عراقی بین الاقوامی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ اربیل میں صیہونی جاسوسی اڈے کے خلاف ایران کی فوجی کارروائی مکمل طور پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے اور بعض لوگوں کی طرف سے جو شور مچایا گیا ہے وہ سیاسی اور غیر حقیقی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: کرمان اور سیستان و بلوچستان کے صوبوں میں دہشت گردانہ دھماکوں اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں دمشق میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر کے قتل کے جواب میں پاسداران انقلاب نے طویل فاصلے تک نشانہ بنانے والے میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے اربیل (عراقی کردستان) میں اسرائیل کے جاسوسی اڈے اور شام میں داعش کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔

مہر کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے عراقی تجزیہ کار قاسم سلمان العودی نے اربیل میں صیہونی اڈے کے خلاف ایران کی فوجی کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرار دیتے ہوئے بعض بیرونی قوتوں کے شور شرابے کو سیاسی معاملہ قرار دیا۔

مہر نیوز: اربیل میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور صہیونی اڈے کے خلاف ایران کے فوجی آپریشن کے بعد، بعض علاقائی اور غیر علاقائی ذرائع ابلاغ نے کئی ممالک کے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر اس کارروائی کو عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

سلمان العودی کہ طوفان الاقصیٰ  آپریشن کو سو دنوں سے بھی زیادہ کا عرصہ ہوا ہے، اس دوران کوئی ایک بھی نیوز ایجنسی ایسی نہیں تھی جس نے غزہ جنگ کو ایران سے نہ جوڑا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ استکباری انٹیلی جنس اداروں نے ایران کے عوام، علماء اور عسکری رہنماؤں کو نشانہ بنایا۔ ان کا آخری حملہ کرمان میں بم دھماکہ تھا جس میں ان معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جو شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت کی برسی کے موقع پر سوگ منا رہے تھے۔ 

شواہد اکٹھے کرنے کے بعد ایران کے سیکورٹی اداروں نے انکشاف کیا کہ اس خطرے کا مرکز عراقی کردستان ہے جہاں موساد کے جاسوسی اڈے موجود ہیں۔ عراق کے ساتھ کئی سرکاری رابطوں کے بعد جب اس نے صیہونی شرارتوں کے خلاف ایرانی عوام کی حمایت کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا تو ایران کی سیکورٹی فورسز نے اس ہیڈکوارٹر پر راکٹوں سے حملہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس آپریشن کے ایران کے لئے امریکہ اور صیہونی رجیم کے فوجی یا سیاسی نتائج نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ایران نے نہایت جرات مندی کے ساتھ اپنی قومی سلامتی کا دفاع کیا ہے۔

مہر نیوز: ایران نے خطے میں جاسوسی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے ذریعے عرب ممالک، مغرب اور صہیونیوں کو کیا پیغام دیا ہے؟

ایرانی پاسداران انقلاب کا جارح ممالک کو واضح پیغام ہے کہ اگر اسلامی ممالک کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو ایران مشرق وسطیٰ کے مظلوم عوام کی حمایت سے دریغ نہیں کرے گا۔ ایران کے فوجی حملے کا پوری دنیا کو پیغام تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران تمام مظلوم قوموں اور ممالک کا دفاع کرتا ہے چاہے وہ جہاں بھی وہ ہیں۔

تہران نے جارح ممالک کو جنگی طاقت اور آمادگی کا پیغام بھیجا کہ ایران فوجی جواب کے بھرپور تیار ہے اور وہ فلسطین میں اپنے بھائیوں کی حمایت کے لئے ہمہ وقت آمادہ ہے۔وسیع تر معنوں میں ایران، یمن، عراق، شام، لبنان اور فلسطین پر امریکی حملوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا کیونکہ مزاحمتی قوتیں صہیونی دشمن کے خلاف متحدہ محاذ کا حصہ ہیں۔

حالیہ برسوں میں ہم نے شمالی عراق پر ترکی کی جانب سے بارہا حملوں کا مشاہدہ کیا ہے اور دوسری طرف عراقی پارلیمنٹ کی طرف سے قابض افواج کو بے دخل کرنے کے فیصلے کے باوجود امریکی قابض افواج کے اس ملک میں اب بھی فوجی اڈے موجود ہیں۔ آپ کے خیال میں اس دوہرے معیار کی وجہ کیا ہے؟

ایران کے حملے نے عراق میں کردستان کی علاقائی حکومت کے دوغلے پن کو واضح کیا، کیونکہ وہ شمالی عراق پر ترکی کے بار بار حملوں سے آنکھیں چراتی ہیں۔ تاہم اگر تہران اپنی قومی سلامتی کا دفاع کرتا ہے تو دنیا اس کارروائی کے خلاف اس مصنوعی "خودمختاری" پر شور مچائے گی جس پر ان میں سے بعض کو فخر ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون جس ملک کی قومی سلامتی خطرے میں ہو اسے اپنے مفادات کا دفاع کرنے کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ اس ملک کی سرزمین سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب بغداد میں مزاحمت کے فاتح رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں سے آخری شہید ابو تقوی تھے، جنہیں امریکی ڈرون نے مار ڈالا، لیکن ہم نے امریکہ کی موجودگی کے خلاف عربوں اور کردوں سمیت عراقیوں کی طرف سے نہ کوئی شکایت سنی اور نہ ہی انہیں آواز اٹھاتے دیکھا۔ 

لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ عراق سے امریکی افواج کا انخلاء ایک فوری قومی ضرورت بن گیا ہے۔

اس حقیقت کے علاوہ کہ شمالی عراق کی علیحدگی پسند حکومت کو صیہونی انٹیلی جنس سروسز کو استعمال کرنے پر سزا دی جائے جو عراق کے پڑوسی ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔ 

عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کہ جس میں غیر ملکی اور امریکی افواج کے انخلاء پر زور دیا گیا تھا، عراق کی خودمختاری کو بحال کرنے کی ضمانت دیتی ہے، لیکن بعض (امریکہ نواز ملک دشمن قوتوں) نے اس قرار داد پر عدم رضامندی کا اظہار کیا۔

News ID 1921386

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha