8 دسمبر، 2023، 2:28 PM

استنبول سے مہر نیوز کے نامہ نگار کی خصوصی رپورٹ/3؛

جنگی علاقوں میں صحافتی ورانہ سرگرمیوں کا جائزہ

جنگی علاقوں میں صحافتی ورانہ سرگرمیوں کا جائزہ

"جنگ اور میڈیا" کے عنوان سے منعقدہ نشست کے چوتھے دن، الجزیرہ کے ایک تجربہ کار صحافی نے جنگی حالات میں صحافتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جنگی علاقوں میں میڈیا کی سرگرمیوں کو کبھی بھی جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی- بین الاقوامی ڈیسک: قطر کے الجزیرہ چینل کے زیر اہتمام "میڈیا اینڈ وار" کا پانچ روزہ اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہو رہا ہے۔ جس میں خطے کے مختلف میڈیا کے 100 کے قریب صحافی اور ماہرین موجود ہیں۔ یہ ملاقاتیں مکالمے پر مبنی سوالات و جوابات کی صورت میں منعقد ہوئیں، جن میں مہر خبر رساں ادارے کے صحافیوں نے بھی شرکت کی۔

نشست ایک میڈیا ورکشاپ کی شکل میں میڈیا ایکسپرٹس اور قانونی ماہرین کی موجودگی میں منعقد ہوئیں جہاں پہلے اور دوسرے دن اردن کی ممتاز قانون دان ممتاز فقیہ "ہالہ احد" نے جنگی جرائم اور نسل کشی کی بین الاقوامی فورمز میں قانونی پیروی پر سیر حاصل گفتگو کی۔

تاہم اس نشست کے تیسرے دن غزہ کے ایک فلسطینی نامہ نگار "محمد الزعانین" نے "اوپن میڈیا سورسز" (OSINT) کے عنوان سے موروضی تحقیق سے متعلق اپنے مطالب بیان کئے۔

جنگی علاقوں میں صحافیوں کی سرگرمیاں

اس اجلاس کے چوتھے دن الجزیرہ کے نمائندے عامر لافی نے "جنگی علاقوں میں میڈیا کوریج" کے عنوان سے جنگی صحافت کے اصولوں کی وضاحت کی۔

 انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے جنگی علاقوں میں ہر صحافی کا فرض یہ ہے کہ وہ کسی بھی خطے میں امن و سکون کے قیام کے لیے کوششیں کرے اور انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے اس سمت میں اپنی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے خبروں کی اشاعت میں تحقیق اور درستگی، میدانی صورت حال کی درست تصویریں کشی، معتبر ذرائع کی کی بنیاد پر رپورٹنگ کو اپنا شعار بنائے کیونکہ یہ جنگی علاقوں میں صحافت کے اہم اصولوں میں سے ہیں۔

جنگی علاقوں میں صحافتی ورانہ سرگرمیوں کا جائزہ

عامر لافی نے کہا کہ ایک صحافی کو جنگی علاقے کے تمام فریقین سے رائے طلب کرنی چاہیے اور اس مسئلے پر انسانی ہمدردی کا نظریہ رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، جنگ کے ایک منظر میں، صحافی کو بغیر کسی تعصب کے اس بات کی نشاندہی کرنی چاہیے کہ دونوں طرف سے تشدد جاری ہے، اسے میڈیا کی سرگرمیوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ شہریوں کے لیے جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا چاہئے اور جنگ کے زمانے میں رپورٹر کا مقصد ان لوگوں کو پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جن کی کوئی آواز نہیں۔ میڈیا کو اس طبقے کی آواز بننا چاہئیے۔

صحافی کی سرگرمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوتی

انہوں نے مزید کہا کہ جنگ کے دوران صحافتی سرگرمیوں کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ امن و سکون صرف تشدد کو روک کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ میڈیا کا کام جنگ کے خاتمے کے بعد ختم نہیں ہوتا اور جنگ کے بعد کی صورت حال میں نامہ نگار کو چاہیے کہ وہ جنگ کے نتائج اور تعمیر نو کی مدت جیسے مسائل پر توجہ دے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔

عامر لافی نے جنگ میں جانبدارانہ میڈیا کوریج کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہا: حقیقت پسندی اور طریقہ کار کی تحقیق کا فقدان جنگی واقعات کی جانبدارانہ کوریج کی خصوصیات میں سے ہیں، جس کے دوران مذکورہ میڈیا ہاوسز، کوریج کے ذریعے صرف اپنے مقاصد کے حصول پر توجہ دیتے ہیں۔

جنگی علاقوں میں صحافتی ورانہ سرگرمیوں کا جائزہ

انہوں نے جنگی واقعات کے اصل ماجرا کو بیان کرنے کے بجائے صرف وقائع نگاری پر توجہ دے کر تمام انسانی اقدار کو دوسرے فریق سے چھیننے، مسلسل پروپیگنڈے اور حد سے زیادہ جھوٹ کو جنگ کی جانبدارانہ کوریج کی دیگر خصوصیات کے طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ میڈیا ذرائع " مسلسل جھوٹ بولو تاکہ لوگ یقین کریں" کے اصول پر  ہیں سامعین کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

جنگ کے دوران صحافی کو حقائق کی کوریج کرنی چاہیے۔

الجزیرہ کے رپورٹر نے جنگ کے دوران گمراہ کن اور دھوکہ دہی پر مبنی خبروں کی اشاعت کو روکنے کو صحافیوں کے اہم فرائض میں شمار کرتے ہوئے کہا: میڈیا کی بہتر کوریج کے لیے جنگی علاقوں میں گائیڈ کا استعمال بہت ضروری ہے اور ضروری کام انجام دینے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ مشاورت بھی لازمی ہے۔

جنگی علاقوں میں صحافتی ورانہ سرگرمیوں کا جائزہ

اس سلسلے میں صحافیوں کو چاہئے کہ وہ کرداروں اور لوگوں کو منفی نام دینے سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں اور ان کے اعمال و افعال پر زیادہ توجہ دیں، مثال کے طور پر صیہونی  وزیر اعظم نیتن یاہو جیسے کردار کے بارے میں بھی کہ جن کے جرائم واضح ہیں، اسے قاتل کہنے کے بجائے بہتر ہے کہ غزہ میں اس کے حکم سے ہونے والے قتل عام کی تصویروں پر فوکس کرتے ہوئے اسے خبر کی شکل میں پیش کرکے سامعین کو خود حقائق کا جائزہ لینے کی دعوت دی جائے۔

ارادوں کی جنگ میں شکست ناقابل تلافی ہے۔

استنبول میں میڈیا اور جنگ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس کے پانچویں روز الجزیرہ چینل کی سابق ڈائریکٹر وداح خانفر نے "ارادے اور توپخانے کی جنگ" کے عنوان سے مطالب پیش کئے۔
 انہوں نے غزہ جنگ کے واقعات کی طرف اشارہ کیا کہ جہاں صیہونی حکومت تمام تر جنگی ذرائع استعمال کرنے کے باوجود قوم کی مرضی اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف ناکام رہی۔

انہوں نے مزیدکہا کہ فوجی میدان جنگ میں شکستوں کی تلافی کسی اور معرکے میں کی جا سکتی ہے اور حالات کو سابقہ ​​حالت میں واپس لایا جا سکتا ہے لیکن جو شکست ناقابل تلافی ہے وہ ارادوں کی جنگ میں شکست ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی میڈیا بالخصوص پیشہ ور ذرائع ابلاغ کو اس حقیقت کی کوریج کرنی چاہئے کہ غزہ جنگ میں گزشتہ دو مہینوں میں صیہونی حکومت ابھی تک اپنے کسی فوجی یا سیاسی اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے اور خدا کے فضل سے وہ اس جنگ میں شرمناک شکست سے دوچار ہو کر غزہ سے نکلنے پر مجبور ہوجائے گی۔

خانفر نے عرب ممالک کی سکیورٹی ترجیحات تعیین کرنے والے ادارے کی عدم موجودگی کو عرب ممالک کی بنیادی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا: بعض ذرائع ابلاغ جان بوجھ کر ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کو ایسے حالات میں فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب سارے عالمی فریق تسلیم کرتے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانے کی طرف نہیں بڑھا رہا، جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ عرب دنیا کی سلامتی کا اصل مسئلہ (سکیورٹی خطرہ) صیہونی حکومت کے سینکڑوں ایٹم بم ہیں، جن کا فاصلہ تہران کی نسبت مکہ اور مدینہ سے بہت کم ہے۔

الجزیرہ نیوز چینل کے سابق ڈائریکٹر نے عرب دنیا کی سلامتی کی ترجیحات کے بارے میں معاہدے کے فقدان کو ایک بنیادی مسئلہ قرار دیا جس کی وجہ سے بعض عرب حکومتیں ان اقدامات کے منفی نتائج پر غور کئے بغیر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر مجبور ہیں جب کہ وہ سیکورٹی کے اس تباہ کن خطرے (صیہونی رجیم) کے نتائج پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔

News ID 1920442

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha