مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ ہفتوں کے دوران مغربی ایشیا میں ہونے والی سفارتی کوششوں اور پس پردہ سرگرمیوں سے طالبان پھر سے عالمی منظر نامے پر آگئے ہیں۔
ایرانی وزیرخارجہ نے اعلی سفارتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے ہمسایہ ملک پاکستان کا سفر کیا۔ انہوں نے اپنے دورے میں متعدد سیکورٹی ایشوز پر بات چیت کی جن میں سے ایک افغانستان کی صورتحال بھی تھی۔ اسی لئے ایرانی صدر کے نمائندہ برائے افغان حسن کاظمی قمی بھی وفد میں شامل تھے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کاظمی نے کہا تھا کہ افغانستان کا استحکام پاکستان اور ایران کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ افغانستان میں ہونے والی ترقی سے دونوں ممالک براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ امریکہ اس جنگ زدہ ملک کو ہمسایہ ممالک کے خلاف محاذ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ طویل بارڈر کی وجہ سے دشمن سیکورٹی خطرات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کل تک افغانستان پر ناجائز قبضہ کرنے والے آج بھیس بدل کرنا ملک کے نئے دشمن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی جگہ داعش کے لئے خالی کردی ہے۔ امریکہ افغانستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہ میں خلل ڈال رہا ہے۔
کاظمی نے مزید کہا کہ امریکہ افغانستان کی خارجہ پالیسی پر کنٹرول کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کررہا ہے۔ دباو بڑھانے کے لئے بیرون ملک منجمد اثاثے بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ ماضی کے قابض ممالک کے نزدیک افغانستان میں عدم استحکام بہت اہم ہے کیونکہ اس طرح ہمسایہ ممالک کے لئے مشکلات پیش آئیں گی جبکہ ہمسایہ ممالک افغانستان میں امن اور استحکام کے خواہشمند ہیں۔
انہوں نے طالبان رہنماوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے علاقائی ہم آہنگی اور تعاون کی طرف بڑھیں۔
انہوں نے خطے کے ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ علاقائی اتحاد میں شامل ہونے کے لئے طالبان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسلام آباد میں مقامی حکام سے بھی اس حوالے بات چیت ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ اعلی ایرانی سفارت کار کی یہ وارننگ اس وقت سامنے آئی ہے جب قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اہم میٹنگ ہوئی ہے جوکہ کابل پر قبضے کے بعد دونوں فریقین کی پہلی گفتگو ہے۔
الجزیرہ کے مطابق افغان وزارت خارجہ کے اہلکار کے مطابق دونوں طرفین کے درمیان دو روزہ ملاقات کے دوران اعتماد سازی، طالبان رہنماوں پر پابندی کے خاتمے اور افغان مرکزی بینک کے اثاثوں کی بحالی کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
تہران ٹائمز کو ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ نے افغانستان کے 7 ارب ڈالر اثاثوں کی امریکی بینکوں سے واپسی کے لئے شرط رکھی ہے کہ طالبان خطے میں عدم استحکام پھیلاتے ہوئے ایران کے لئے مشکلات ایجاد کرے۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے اس پیشکش پر اب تک حامی نہیں بھری ہے۔
امریکہ نے ان اطلاعات کی بنیاد پر طالبان سے رابطہ کیا ہے جب پتہ چلا کہ طالبان نے ایران کے ساتھ حالیہ ایام میں سرحدی جھڑپوں کے بعد خودکش بمباروں کو استعمال کرنے پر غور کیا تھا۔
باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بلومبرگ نے کہا ہے کہ طالبان نے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں فوجیوں اور سینکڑوں خودکش حملہ آوروں کو ایران کے ساتھ سرحد پر بھیجا ہے۔ امریکی فوج کی جانب سے افغانستان میں چھوڑے گئے سینکڑوں فوجی گاڑیاں اور ہتھیار اس پر مستزاد ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ایران نے افغانستان کی مشکلات حل کرنے میں مدد کی ہے۔
اس حوالے سے افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی ایران نے مذاکرات کئے ہیں۔ جب دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی پیدا ہوئی تو ایران نے نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کا تبصرہ