مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یمن کی تحریک انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن "علی القحوم" نے المیادین کے ساتھ گفتگو میں تاکید کی ہے کہ عمانی ثالث مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کر رہا ہے اور ہم ابھی تک اس کی حمایت کر رہے ہیں اور اس بارے میں پر امید ہیں، کچھ مسائل میں اچھی پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
یمنی فریق نے اپنی لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اس ملک کے عوام کے دکھوں اور تکالیف کو کم کرنے کے لیے گیس اور تیل کے وسائل کی فروخت سے آمدنی حاصل کرنے کے علاوہ انسانی بنیادوں پر مقدمات کی بندش کا خواہاں ہے۔
القحوم نے مزید کہا کہ مذاکرات کا عمل مثبت ہے اور ہم یمنی عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے تبالہ خیال اور افہام و تفہیم کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
یمن کے خلاف جارحیت کی قیادت کرنے والے سعودی عرب کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ وہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں امن کے لئے کردار ادا کرے اور یہ سعودی عرب، یمن اور خطے کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کو مدنظر رکھے اور ایک جارح ملک کی حیثیت سے ایک دوست ملک کی طرف بڑھے اور یمن کے ساتھ متوازن تزویراتی تعلقات قائم کرے اور اپنے ماضی کے خوابوں اور تاریک خیالات کو چھوڑ دے جو بالآخر یمن کے خلاف جارحیت پر منتج ہوئے۔
القحوم نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یمن اور علاقے کی پیشرفت کو حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے اور نئے سعودی عرب اور نئے یمن کی تعمیر کے لیے مثبت بات چیت کی جائے۔
نئے سعودی عرب کو سیاسی اور سفارتی میدانوں میں فعال اور درست طریقے سے کام کرنا چاہیے اور بین الاقوامی قوتوں کے توازن کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنا چاہیے۔
انہوں نے تاکید کی کہ عرب اور اسلامی ممالک سعودی عرب میں ان مثبت پیش رفت کا خیر مقدم کریں گے۔ سعودی عرب کو ایک نئے طرز عمل کے ساتھ یمن اور عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ اچھے اسٹریٹجک تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور امریکی تسلط سے باہر نکلنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ