مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے مبلغین اور مدارس کے طلباء کے ایک گروپ نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب کے بیان کردہ اہم نکات حسب ذیل ہیں؛
اگر ثقافتی میدان میں تبلیغ کی اہمیت کو نظر انداز کیا گیا تو ہم ثقافتی تبدیلی کے خوف ناک چیلیجز سے گزریں گے۔
مختلف ذرائع سے مجھ تک پہنچنے والی معلومات کے مطابق، میں تبلیغ کے بارے میں فکر مند ہوں۔
اس ملک میں تبلیغ کی گنجائش اتنی وسیع ہے کہ اگر ہم اپنے سے کئی گنا زیادہ کام کریں تو بھی مجھے نہیں لگتا کہ یہ کمی پوری ہو سکے گی۔
ہمیں تبلیغ، موعظہ اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
آج، مدارس میں مروجہ نظریہ یہ ہے کہ تبلیغ دوسرے نمبر پر ہے، پہلی جگہ دوسری چیزیں مثلا علمی کام وغیرہ ہیں۔ دوسرا نمبر تبلیغ کا ہے اور ہمیں اس نظرئے سے عبور کر کے تبلیغ کو پہلی ترجیح میں لانا ہوگا۔
آج نوجوانوں اور جوانوں کی عمومی بیداری کی سطح کا ماضی سے بالکل بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ میری تقریباً ساری زندگی میں سے تبلیغی زندگی ساٹھ سال کی ہے اور یہ زیادہ تر نوجوانوں کے ساتھ گزری ہے۔ اس زمانے میں جوانوں کی سوچ اچھی تھی، نوجوان سوچنے والے تھے، لیکن آج سے اس کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آج سوچ کی سطح بڑھ گئی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے نوجوانوں اور سامعین کی سوچ کی سطح میں اضافہ ہوا ہے لیکن ایک وبا بھی پھیلی ہے، اور وہ یہ کہ سوشل میڈیا کی کثرت میں آوازوں کا ایک ایسا ہجوم ہے جس میں صحیح دینی معارف کے انتقال کی آوز مدھم پڑ گئی ہے۔
والدین اپنے بچوں کو بہت کچھ سکھاتے تھے لیکن آج سوشل میڈیا کی بے ہنگم افراتفری میں ان کی آواز کمزور پڑ گئی ہے۔
محض شبہات کا جواب دینا کافی نہیں بلکہ یہ دفاعی پوزیشن ہے اگرچہ یہ بھی ضروری ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ دوسرے فریق کے پاس فکری بنیادیں ہیں، اس پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن اہم چیز اس روداد اور عوامل کی شناخت ہے۔ یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب آپ نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں، تو آپ کا حریف کون ہے؟، فلاں فلاں نے کچھ شبہات اٹھائے ہیں تو کیا وہ خود ہے، اس کا قوی امکان ہے۔
حوزہ ہائے علمیہ کی اولین ترجیح ہے۔ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے لیکن ہمارے دور میں خاص طور پر یہ اہمیت دوگنی ہے۔ کیونکہ ہمارے دور میں ایسا کچھ ہوا ہے جو اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے میں نہیں ہوا اور وہ ہے اسلام کی حکمرانی اور وہ بھی ملکی انتظامیہ کی سیاسی تنظیم کی تشکیل جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جب ایسی صورت حال ہو تو فطری طور پر اسلام سے دشمنی شدید ہو جاتی ہے۔ - لہذا ہمارے دور میں تبلیغ زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام کی بنیاد عوام کا ایمان ہے۔ عوام کا ایمان نہیں ہوگا تو نظام نہیں ہوگا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ زمانہ سائنسی ترقی کا دور ہے، اس لیے آج پیغام پھیلانے کے ہر طرح کے طریقے ہیں، جن کے بارے میں ماضی میں سوچا بھی نہیں جاتا تھا۔ ٹی وی اور سیٹلائٹ سے لے کر انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کے بعد، یہ نئی چیزیں جو آگئی ہیں جیسے مصنوعی ذہانت اور اس طرح کی چیزیں۔
ایسی صورت حال میں جہاں دشمن کے پاس خون بے پناہ وسائل اور ہتھیار ہیں، ہم کیا کرنا چاہتے ہیں، یہاں آکر تبلیغ کی دوگنی ہو جاتی ہے ہیں۔
مزید تفصیلات کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا تبصرہ