مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روزنامہ رائ الیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور تحریک حماس کے درمیان دونوں ممالک کے تعلقات میں بدترین اور کشیدہ دور دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم اس تاریک دور کے اختتام کو پہنچ گئے ہیں۔ حماس کے خلاف سعودی عرب کے سخت موقف بالخصوص اس کے خلاف ملکی میڈیا کے حملوں میں کمی آئی ہے۔
ریاض نے حال ہی میں حماس کے متعدد سرکردہ رہنماؤں کو رہا کیا ہے جو سعودی عرب میں قید تھے۔ سوشل میڈیا میں بھی اس پیشرفت وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔
حماس کے رہنماؤں، خاص طور پر اسماعیل ہنیہ کے حج کے مناسک کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کے سفر نے بہت سے تجزیہ کاروں کو ایرانی کوڈ نام کے ساتھ ریاض اور حماس کے تعلقات میں ایک نئے صفحے کے آغاز کے بارے میں بات کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ حماس اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا تاریک دور 2017 میں شروع ہوا۔ مئی 2017 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی حکام کی موجودگی میں ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے دوران حماس کو دہشت گرد تحریک قرار دیا تھا اور 22 فروری 2018 کو سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے برسلز میں اس تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جس سے حماس اور ریاض کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔
علاوہ از این، 2019 میں، حماس کے عہدیداروں نے سعودی عرب کے ہاتھوں اپنے متعدد رہنماؤں اور درجنوں دیگر فلسطینیوں کی گرفتاری کا اعلان کیا۔
سیاسی تجزیہ کار مصطفیٰ الصواف نے اس بات پر زور دیا کہ حج کے مناسک ادا کرنے کے لیے حماس کا سعودی عرب کا دورہ طرفین کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ تعلقات درست راستے پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی واپسی نے سعودی عرب اور تحریک حماس کے تعلقات پر قطعی اور مثبت اثر ڈالا ہے۔ ہم پیشن گوئی کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہم دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات اور دوستانہ ملاقاتوں کے انعقاد میں حیران کن واقعات کا مشاہدہ کریں گے۔"
آپ کا تبصرہ