مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی وزارت خارجہ نے البانیہ کی پولیس کی جانب سے دہشت گروہ منافقین کے اڈے پر حملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ البانیہ اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کے خلاف تحقیقات کا حق رکھتا ہے۔
فاکس نیوز کے مطابق وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں گروہ منافقین کے خلاف البانیہ کی پولیس کی کاروائی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے امریکہ کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ منگل کی شام کو البانیہ کی پولیس کے سربراہ محمد رومبولاکو نے وزیر داخلہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دہشت گروہ منافقین کے خلاف کاروائی کا انکشاف کیا تھا۔
انہوں نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیمپ میں موجود بعض افراد پولیس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے تھے۔ پولیس 17 عمارتوں میں نصب کمپیوٹروں کو قبضے میں لینا چاہتی تھی لیکن منافقین کے رہنماوں نے تعاون نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران فریقین کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 15 پولیس اہلکار اور کیمپ میں مقیم 21 افراد زخمی ہوگئے۔
اس موقع پر وزیر داخلہ بلدی کوچی نے پولیس کے چھاپے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2014 کے معاہدے کے مطابق البانیہ کی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر منافقین کے ارکان کو پناہ دی تھی۔ لیکن انہوں نے تخریب کاری اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ذریعے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ منگل کے روز ہونے والی کاروائی دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں کا حصہ تھا۔
البانیہ کے ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے عدالت کے حکم کے تحت منافقین کے خلاف کاروائی کی تھی کیونکہ منافقین دہشت گردی کی کاروائیاں کررہے تھے۔ سائیبر حملوں میں ملوث چند شرپسند عناصر کی موجودگی کے بارے میں شک ہونے کی وجہ سے کیمپوں پر چھاپہ مارا گیا۔
دراین اثناء تاپ چینل نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس کے حملے میں دہشت گرد تنظیم کا ایک رکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
دہشت گرد تنظیم منافقین خلق کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ رائیٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی حکومت نے بھی منافقین کے رہنماوں کو لیٹر جاری کرکے سالانہ اجلاس کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔
دہشت گروہ کے خلاف یہ واقعات اس وقت ہورہے ہیں جب یورپی ممالک اور ایران کے درمیان کشیدگی کم ہورہی ہے اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہورہا ہے۔ فرانس کے صدر نے بھی ایرانی صدر رئیسی سے ٹیلفون پر 90 منٹ بات چیت کی ہے۔
رائیٹرز کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران منافقین فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مظاہرے اور اجلاس منعقد کرتے آئے ہیں جن میں مغربی اور عرب ممالک کے اعلی حکام شرکت کرتے تھے۔
آپ کا تبصرہ