مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کے سابق وزیر جنگ "ایویگڈور لائبرمین" نے منگل کے روز بنجمن نیتن یاہو کو ایک بار پھر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اعتراف کیا کہ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی کا مطلب اس حکومت کی خارجہ پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔
عبرانی چینل 12 کے ساتھ ایک انٹرویو میں لائبرمین نے نیتن یاہو کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو کا کام ختم ہو گیا ہے، اب اس کا معاملات پر کنٹرول نہیں ہے اور ہم اس کے برے اثرات محسوس کر رہے ہیں، برے اثرات کی واضح مثال، تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کا بحال ہونا ہے اور یہ معاہدہ تہران کے خلاف ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پروگرام میں شریک صہیونی سیاستدان نے نیتن یاہو کی کابینہ پر ایک بار پھر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے ایک جھوٹا کھیل شروع کیا ہے اور میں اس کھیل کا کبھی حصہ نہیں بنوں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاہو اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہے ہیں اور وہ اس عہدے کیلئے اہل نہیں ہیں۔
عبری چینل 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے غاصب صہیونی کے سابق وزیر جنگ نے تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی کا ذکر کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ معاہدہ نیتن یاہو کیلئے ایک سنگین شکست ہے اور اسے چاہیئے کہ شکست تسلیم کرتے ہوئے استعفیٰ دیں۔
اس ٹیلیویژن گفتگو میں، لائبرمین نے اسرائیلی وزیر جنگ کی برطرفی کے معاملے کی طرف اشارہ کیا اور نیتن یاہو پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے وزیرِ دفاع کو برطرف کیا اور وہ حقیقت میں اپنے کام کی ترجیحات کا صحیح اندازہ نہیں رکھتے، جیسا کہ پہلے ہی ہم نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے ایران اور غزہ کے بارے میں سنا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایویگڈور لائبرمین نے بنجمن نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ 'نیتن یاہو غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنور اور سید حسن نصر اللہ کے سامنے چوہے کی طرح ہیں اور انہوں نے ڈیٹرنس پاور بنا دیا ہے اور یہ حکومت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
آپ کا تبصرہ