20 فروری، 2023، 8:27 AM

مہر کی خصوصی رپورٹ؛

شام میں زلزلے کی آڑ میں امریکی حمایت یافتہ قاتلوں کی نقل و حرکت

شام میں زلزلے کی آڑ میں امریکی حمایت یافتہ قاتلوں کی نقل و حرکت

ایسے وقت میں کہ جب شامی عوام تباہ کن زلزلے اور امریکی پابندیوں کے نتائج سے نبرد آزما ہیں، ایک مرتبہ پھر تکفیریوں نے اپنی نقل و حرکت شروع کر دی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی - انٹرنیشنل ڈیسک: ایسے وقت میں کہ جب شامی عوام تباہ کن زلزلے سے نبردآزما ہیں وہیں خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے آلہ کار ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ اگرچہ دو مہیب زلزلوں نے ہزاروں افراد کی جانیں لے لیں اور شدید سردی میں لاکھوں دیگر افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا تاہم شامی عوام کو دہشت گردوں کے حملوں کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔

داعش کے تازہ ترین حملے میں حمص کے مضافات میں 53 افراد جاں بحق ہوئے۔ داعش کے حملے میں مارے جانے والے افراد حمص کے مشرقی مضافات میں واقع السخنہ شہر کے جنوب مشرق میں صحرائی کھمبیاں جمع کر رہے تھے۔ حمص کے مشرقی مضافات میں السخنہ شہر کے جنوب مشرق میں الضبیات کا علاقہ ہے جہاں التدمریہ کے صحرا میں لوگ کھمبیاں جمع کر رہے تھے کہ داعش کے دہشت گردوں نے انہیں کافی دیر تک مشین گنوں سے نشانہ بنایا اور ان میں سے 53 کو ہلاک کر دیا۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق داعش نے شام کے صحرائے پالمیرا ﴿التدمریہ﴾ میں اغوا کیے گئے 12 یرغمالیوں کو قتل کردیا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں 63 دیگر افراد کے بارے میں کوئی اطلاعات نہیں جنہیں 5 روز قبل تکفیریوں نے اغوا کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ وہ مزدور ہیں جنہیں مشرقی حمص کے صحرائے پالمیرا میں جنگلی کھمبیاں جمع کرنے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔

داعش نے ایک خاتون سمیت 12 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ داعش کے سیلز شام اور ترکیہ کے زلزلے کی تباہ کن صورتحال اور  عالمی برادری کی اس زلزلے کے تباہ کن نتائج کی طرف توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے اس طرح کے وحشیانہ اقدامات کر رہے ہیں۔

قبل ازیں راجو جیل کے ایک اہلکار نے کہا تھا کہ زلزلے کے بعد شام کے شمال مغرب میں رکھے گئے قیدی جیل سے بھاگ گئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر داعش کے جنگجو تھے۔ یہ جیل ترکیہ کی سرحد کے قریبی شہر میں واقع ہے جس میں کم از کم 2 ہزار قیدی ہیں جن میں سے تقریباً 1,300 پر داعش کا رکن ہونے کا شبہ ہے۔

شام میں داعش کا مرکز

تکفیریوں کی سب سے زیادہ نقل و حرکت حمص اور تدمر میں ہیں۔ تدمر جسے انگریزی میں پالمیرا کہتے ہیں، شام کے وسط میں پرانے اور قدیم علاقوں میں سے ایک ہے اور صوبہ حمص کا حصہ ہے۔ یہ شہر دمشق سے تقریباً 215 کلومیٹر کے فاصلے پر اور اس کے شمال مشرق میں واقع ہے اور یہ دریائے فرات سے 150 کلومیٹر اور حمص کے مشرق میں 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

آج کل اسے شام میں صحرا کی دلہن ﴿عروس الصحرا﴾ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ آرامی اور کچھ دوسری قدیم زبانوں میں اس کے مزاحمت کرنے والوں کا شہر اور ناقابل تسخیر شہر جیسے ناموں کو ذکر کیا جاسکتا ہے۔ اس شہر کو دنیا کے اہم ترین تاریخی اور قدیم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اسے ایک خاص تہذیبی اور تاریخی شہرت اور مقام حاصل ہے۔ ملکہ زینوبیا کے دور میں اس شہر کو خاص خوشحالی اور عرون نصیب ہوا۔ یہ شہر لیونٹ ﴿قدیم شام کی سرزمین﴾ اور میسوپوٹیمیا ﴿بین النہرین﴾ کے درمیان کاروبار کرنے والے تجارتی قافلوں کی میزبانی کرتا تھا اور شاہراہ ریشم پر واقع تھا۔ صحرا کی دلہن، واحة النخیل اور نیو ایتھنز کچھ دیگر نام ہیں جو اس شہر کو دیے گئے ہیں۔ رومیوں نے اسے پالمیرا کا نام دیا۔ خلیفہ اول کے دور میں مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کیا۔ تدمر یا پالمیرا شہر کو 1980 میں یونیسکو کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

شام میں زلزلے کی آڑ میں امریکی حمایت یافتہ قاتلوں کی نقل و حرکت

تدمر  اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ شامی صوبوں خاص طور پر دمشق اور حمص کے شہروں کے درمیان رابطے کا مقام ہے۔ اس شہر پر غلبہ حاصل کر کے داعش حمص کو نشانہ بنانے اور اس کے خطرات پیدا کرنے کے قابل بن سکے گی اور شام کے شمال، مرکز اور مشرق میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کے درمیان رابطہ قائم کر سکے گی۔ شام کا البادیہ ﴿صحرائی علاقہ﴾ جس کے مرکز میں تدمر ہے عراق کے صوبہ الانبار کے ساتھ طویل سرحدیں رکھتا ہے۔ الانبار کا مرکز رمادی کچھ عرصے تک داعش کے زیر قبضہ رہا ہے۔

امریکہ نے اپنے آلہ کار قاتلوں کو متحرک کر دیا

داعش کی نقل و حرکت میں امریکہ کا اہم کردار ہے۔ داعش کی سرگرمیوں سے باخبر اور ایک اعلیٰ فیلڈ ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ داعش التنف کے علاقے میں جو شام، عراق اور اردن کی سرحدی مثلث میں واقع صوبہ حمص کے مشرقی مضافات میں واقع ہے، امریکی افواج افواج سے وسیع سپورٹ حاصل کر رہا ہے جہاں  امریکی فوج نے لاجسٹکس اور فوجی سامان کا بیس بنا رکھا ہے۔  اس باخبر ذریعے نے بتایا کہ دہشت گرد تنظیموں کو سپلائی لائنوں کے ذریعے امریکی حمایت "رقہ" اور "حماہ" کے علاقوں تک پہنچتی ہے۔

امریکہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنی کتاب "دی روم ویئر اٹ ہیپنڈ " ﴿The Room Where It Happened﴾ میں اپنے ایک انکشاف میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ بات لکھی ہے کہ ہم شام میں داعش کو کیوں مار رہے ہیں؟ روس، ایران اور عراق کے فائدے کے لیے ہم داعش کو کیوں ماریں؟

البتہ داعش کے بارے میں یہ بیانات کوئی نئے نہیں ہیں کیونکہ 2016 میں ہلیری کلنٹن اور ٹرمپ دونوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ داعش کو امریکی خفیہ ایجنسی نے بنایا ہے۔ تاہم بولٹن کے الفاظ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اس دہشت گرد تکفیری گروہ کے ساتھ امریکہ کے اٹوٹ اور موروثی تعلق کی بھی نشاندھی کرتے ہیں اور اس گھناونے اور خوفناک تعلق کے بدستور قائم ہونے اور جاری رہنے  پر بھی ازسر نو تاکید کرتے ہیں!

ہر گزرتے دن کے ساتھ شام میں دہشت گردوں کے لیے امریکی حمایت کی نئی جہات سامنے آ رہی ہیں۔ اس سے پہلے میڈیا نے متعدد بار داعش کے لیے امریکیوں کی حمایت کے بارے میں رپورٹس پیش کی ہیں، جس میں ہیلی برن آپریشنز اور داعش کے سرغنوں اور سرکردہ رہنماؤں کو علاقے سے نکالنا، نیز ہتھیاروں اور گولہ بارود کے پیکجز گرانا اور داعش کے خلاف برسرپیکار فورسز پر بمباری کرنا شامل ہے۔

التنف دہشت گرد پالنے کا ایک امریکی اڈہ

امریکی فوج کے زیر قبضہ التنف بیس کے ارد گرد کے علاقے میں بہت سے کیمپ موجود ہیں جو امریکیوں کی طرف سے شام کے اندر حالات کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے دہشت گردوں کی تربیت کے لیے بنائے گئے ہیں۔

واشنگٹن دعویٰ کرتا ہے کہ شام-اردن-عراق کی سرحد پر واقع علاقے التنف میں اس کا بیس کیمپ داعش کے خلاف لڑنے کے لیے ہے جبکہ اس بیس میں موجود اس کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف ایک گولی بھی نہیں چلائی۔

التنف کا علاقہ شام کے اہم اور اسٹریٹیجک علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس اہمیت کی سب سے بڑی وجہ التنف کے علاقے کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ التنف کراسنگ شام، عراق اور اردن کے تین ملکوں کے درمیان ایک مشترکہ باڈر پوائنٹ ہے جو شام اور عراق کے درمیان پہلی اور اہم ترین سرحدی گزرگاہ شمار ہوتی ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اس کراسنگ کا کنٹرول شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کے حوالے نہ کیا جائے۔ اس کراسنگ اور اس کے ارد گرد 50 کلومیٹر کے دائرے تک کا کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھ میں ہے اور امریکہ یہاں تک کہ شامی افواج کو التنف کراسنگ کے قریب بھی جانے کی اجازت نہیں دیتا۔

التنف کراسنگ سیاسی نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ کراسنگ عراق کے قریب ہونے کی وجہ سے شام اور عراق میں مقاومت کے محور کو جوڑتی ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس سے امریکہ اور اس کے اتحادی خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان کی سب سے اہم حکمت عملی خطے میں بالخصوص شام اور عراق میں مقاومتی گروہوں کے رابطے میں ممانعت پیدا کرنا ہے۔

نتیجہٴ سخن

ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد عناصر موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انہوں نے سراٹھانے اور اپنی دھاک بٹھانے کا ایک موقع ڈھونڈ لیا۔ دہشت گرد اس کوشش میں ہیں کہ اس زلزلے کو اپنے لیے ایک موقع کے طور پر اور شام میں اپنی افرادی قوت کی بھرتیوں کے اعلان اور دعوت عام کے لیے استعمال کریں، خاص طور پر یہ کہ داعشی عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جو خوفناک زلزلہ آیا ہے وہ ایک عذاب الہی تھا جو شامی شہریوں کے کفر کی وجہ سے آیا ہے اور ان جیسے واقعات اور آسمانی بلاوں سے امان حاصل کرنے کے لیے سب کو داعش کی مبینہ خلافت کے قیام کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔

داعش اور شام میں موجود دیگر دہشت گرد گروہوں کو شام میں آنے والے مہیب زلزلے اور اس کے تباہ کن نتائج کی کوئی فکر لاحق نہیں اور وہ ان امور پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ اس زلزلے کو ایک مغتنم موقع سمجھتے ہیں اور اسے نئی راہ کے لیے نقطہ آغاز کے طور استعمال کر ر ہے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے عزائم اور منصوبوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے قابل ہوجائیں گے۔

News ID 1914834

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha