ایرانی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان ابو الفضل عمویی نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ بات کرتے ہوئے جے سی پی او اے (۲۰١۵ کے جوہری معاہدے) کی تازہ ترین صورتحال پر بات کی اور کہا کہ جے سی پی او اے ایک معاہدے کے طور پر جو 2015 میں ایران اور 1+5 گروپ کے درمیان طے پایا تھا اب بھی اسلامی جمہوریہ ایران اور 1+4 گروپ کے درمیان موجود ہے۔
انہوں نے امریکہ کو جے سی پی او اے مذاکرات کے عمل میں سست روی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ یہ امریکہ تھا جس نے جے سی پی او اے معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور پھر معاہدے میں دوبارہ واپس آنے کا ارادہ ظاہر کیا اور امریکہ کی واپسی کی شرائط ہی گزشتہ ڈیڑھ سال سے ہمارے مذاکرات کا مرکز ہوئی ہیں۔ یہ امریکہ تھا جس نے انتخابات اور اپنے دیگر اندرونی حالات کی وجہ سے مذاکرات کو مزید تیزی سے آگے بڑھانے کے عمل سے فاصلہ اختیار کیا اور اس کے بعد سے ان کے غلط سیاسی تجزیوں کی وجہ سے مذاکرات کی پیش رفت سست پڑ گئی۔
ایران مذاکرات میں اپنے مفادات سے پیچھے نہیں ہٹے گا
ابو الفضل عموئی نے کہا کہ شاید مغرب والوں کو امید تھی کہ ایران میں حالیہ بدامنی انہیں سیاسی فوائد فراہم کرے گی یا مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کر دے گی۔ تاہم اب جبکہ ایران میں سیکورٹی صورتحال بہتر ہوچکی ہے مغرب والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایران مذاکرات میں اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ ایران اپنی ریڈ لائن کو عبور نہیں کرے گا اور مذاکرات میں اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے گا تو سمجھوتے تک پہنچنا قریب ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ یہ تسلیم کر لے کہ ایران اپنی ریڈ لائن کو عبور نہیں کرے گا اور مذاکرات میں اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے گا تو سمجھوتے تک پہنچنا زیادہ دور نہیں ہے کیونکہ معاہدے کے متن میں ایک مسئلہ اور چند جملے باقی رہ گئے ہیں لہذا معاہدہ طے پانا امریکہ کے سیاسی عزم پر منحصر ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے مزید کہا کہ ان میں سے ایک معاملہ ایران اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے درمیان تعاون پر بات چیت کا ہے۔ دوسرے فریق نے اپنی پیش کردہ تجویز میں خود کو پابند کیا تھا کہ وہ ایجنسی میں ایران کی جوہری فائل کو معمول پر لانے میں مدد کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ ایران بھی مذاکرات کے متوازی ایک نیا راستہ اختیار کرے گا جس میں ایجنسی اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ مذاکرات میں باقی تین معاملات پر تعاون کیا جائے گا۔
مغربی فریق اپنے وعدوں پر واپس آجائے اور پابندیاں ہٹائے
پارلیمنٹ میں دار الحکومت تہران سے منتخب شدہ عوامی نمائندے نے اس بات پر زور دیا کہ سمجھوتے تک پہنچنا ناممکن نہیں ہے، تاہم اس مسئلے کا دار و مدار دوسرے فریق کے سیاسی پر عزم ہے۔ ہماری پوزیشن اب بھی مستحکم ہے اور ہم نے مذاکرات کے آغاز سے ہی اعلان کیا تھا کہ اگر دوسرا فریق اپنی سابقہ ذمہ داریوں پر واپس آنے اور پابندیوں کو مؤثر طریقے سے ہٹانے کے لیے تیار ہے تو ایران بھی متلافی اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جے سی پی او اے کا احیاء اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ممکن ہے لیکن اس کا نتیجہ دوسرے فریق کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے اور اسے ملکی، علاقائی اور عالمی میدانوں میں ایران کی پیشرفت کا صحیح ادراک حاصل کرنا ہوگا۔
ایرانی قانون ساز نے مزید کہا کہ مذاکرات کو کبھی روکا نہیں گیا اور ثالثی اور پیغامات اور غیر رسمی مسودے کے متن کے ذریعے اس کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے اندرونی حالات کے بارے میں یورپیوں کا تجزیہ درست نہیں ہے۔ بااثر یورپی ملکوں کی فیصلہ سازی میں ایران مخالف دھاروں کے حد سے زیادہ اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ غلط امیج پیدا ہوا کہ ایران مراعات دینے کے لیے تیار ہے جبکہ اس تصویر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور مغربی ملکوں کو حقیقت پسند بننا ہوگا۔ عام حالات میں یقینی طور پر دوبارہ بات کرنا اور رابطوں کو مضبوط کرنا ممکن ہے۔
آپ کا تبصرہ