حضرت علی بن موسیٰ الرضا (ع) رسول خدا (ص) کی ذریت مطہرہ میں سے شیعوں کے آٹھویں امام اور پیغمبر اسلام (ص) کے آٹھویں جانشین ہیں۔ اور 35 سال کی عمر میں آپ نے امامت اور رہبری کی ذمہ داری سنبھالی۔ آٹھویں امام کی زندگی عباسی خلفاء کی دور خلافت میں گزری جنہوں نے امام رضا علیہ السلام کو بہت سی مشکلات اور مصائب سے دوچار کیا اور آخر کار مامون عباسی نے انہیں 55 سال کی عمر میں شہید کر دیا۔
آٹھویں امام کے مشہور القاب میں سے ایک "عالم آل محمد" ہے۔ یہ لقب حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے علم و معرفت کے ظہور کی طرف اشارہ کرتا ہے اور یہ ایک لقب ہمیں ائمہ علیہم السلام اور مذہبی پیشواوں کے درمیان آپ کے علمی مقام سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ امام رضا (ع) نے اپنے عہد کے عظیم علماء بالخصوص مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ جو متعدد مباحثے منعقد کیے اور ان سب میں آپ سربلند رہے وہ اس لقب پر گواہ ہیں۔
امام رضا ﴿ع﴾، عالم اسلام کا علمی نمونہ
امام رضا علیہ السلام نے علمی طور پر عالم اسلام پر انتہائی زیادہ تاثیر چھوڑی۔ آپ نے دین اسلام سے متعلق مسائل کو حل کرنے اور شکوک و شبہات کو دور کرنے میں بہت انتہائی اہم کردار ادا کیا اور سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی کیونکہ آپ نے علم کے ہتھیار کو منحرف افکار کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
امام رضا (ع) نے الحادی مکاتب فکر کے پیروکاروں اور غیر اسلامی الہی مکاتب اور مکتب اہل بیت (ع) کے علاوہ دوسرے اسلامی فرقوں کے رہنماوں کے ساتھ بہت سے مباحثات و مناظرات کیے تاکہ انہیں ان کے نظریات کے باطل ہونے سے آگاہ کیا جا سکے اور مکتب وحی اور خالص محمدی اسلام کی طرف رہنمائی کریں۔
آپ نے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی اور اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا، آپ کے علمی مقام کی اس قدر دھاگ بیٹھی ہوئی تھی کہ اس وقت کے حکمران امام ﴿ع﴾ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کی کوشش میں رہتے تھے تاکہ لوگوں کی نفرت کا شکار نہ ہوں۔
لوگوں پر مزید واضح کرنے کے لئے ولی عہدی کو قبول کرنا
بنی عباس نے امام رضا (ع) کی علمی چہرے کو خراب کرنے کی کوشش کی اور علمی نشستوں کا اہتمام کرکے اور مذاہب اور مکاتب کے پیروکاروں اور یہاں تک کہ دھریوں کو بھی جو کسی چیز پر یقین نہیں رکھتے، مدعو کرکے امام رضا (ع) کے علمی مقام پر سوال اٹھانے کی کوشش کی۔
مامون نے کئی بار اپنے محل میں مناظرے کا اہتمام کیا اور مختلف مذاہب کے ممتاز علماء کو جمع کر کے امام ﴿ع﴾ سے مناظرہ کروایا، امام رضا علیہ السلام ان تمام مناظروں میں واضح طور پر اور فیصلہ کن انداز میں تمام حاضرین پر غالب آئے اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ خود ان کے دلائل کے ساتھ بحث کی اور اسلامی عقائد اور تعلیمات کی حقانیت اور حقیقت کو مستدل انداز میں ثابت کیا۔
امام رضا علیہ السلام نے دین اور معاشرے کے فائدے کے لیے ولی عہدی کو قبول کیا تاکہ وہ لوگوں کو حکومت جور کے حوالے سے لوگوں آگاہ کرنے میں زیادہ اختیارات کے ساتھ کام کر سکیں۔
عقلیت، منطقی استدلال، آزادانہ سوچ، علمی تخصص و مہارت، جدید علوم کا علم، سامعین کی زبان اور بولی پر عبور، معتبر ذرائع کا حوالہ، مناظرے کے موضوع کی عقلی حدود کی مراعات، انصاف اور احترام باہمی امام رضا (ع) کے فلسفیانہ اور علمی مناظرات کے تربیتی اصول تھے۔
امام رضا علیہ السلام نے کج فہمیوں کے دور میں اپنی عقل و دانش سے بھرپور استفادہ کیا اور عقلی مناظرات منعقد کر کے دانشوروں کو اپنی طرف جذب کیا اور ان میں سے بعض کو اصل راہ، ظاہری حجت اور امامت کی طرف رہنمائی کی۔
آپ کا تبصرہ