مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ممتاز عالم دین، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے واضح کیا ہے کہ مذہبی اعتقادات یا بنیادی عقائد نہیں ،تشریحات مسائل پیدا کرتی ہیں، انتہاءپسندی کی گنجائش کسی بھی معاشرے میں کسی بھی شکل میں نہیں دی جاسکتی،انسان کو آزاد پیدا کیا گیاہے مگر ہر دور میں ایک نئے انداز میں انسان کو غلام بنایاگیا اور بنایاجارہاہے، اب فرد کی جگہ اس سے بھی سخت قوموں اورریاستوں کی غلامی نے لے رکھی ہے، جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیا ، دین الٰہی بہترین راستہ جس نے نہ صرف غلامی کی مذمت، اس کے خاتمے کا جواز فراہم کیا بلکہ انسانیت کی تا قیامت رہنمائی بھی فرمائی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے یکے بعد دیگرے آنیوالے “مذہبی اعتقاد کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین اور غلام تجارت کے خاتمے کا دن “ بارے عالمی ایام پر اپنے پیغام میں کیا۔ قائد ملت جعفریہ نے کہاکہ مذہبی اعتقادات یا بنیادی عقائد ویسے نہیں ہوتے جس طرح ان کی تشریحات و تعبیرات کرکے اور عملی میدان میں اپنے انداز میں فعالیت کی کوشش کی جاتی ہے اور بنیادی عقائد کی تشریح و توجیہ مختلف انداز میں ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ شدت اس حد تک ابھر آتی ہے کہ مخالف نظریہ رکھنے والا نشانہ بنتا ہے اور یہی عمل جسے آج دنیا ”انتہاءپسندی“کا نام دیتی ہے ،عمل میں آتاہے جس کی مہذب دنیا میں کوئی گنجائش نہیں، انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی مساوات اور بنیادی حقوق پر سب کا حق کے اہم ترین بیانیہ پر ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہر دور میں اسے ایک نئے انداز میں انسان کو غلامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اگرچہ کافی حد تک فرد کی غلامی کے دور کا خاتمہ ہوا، مگر فرد کی غلامی سے سخت قوموں اور ریاستوں کی غلامی نے لے لی ہے، جو پہلے درجے سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ اس وقت عالمی انسانیت سیاسی، معاشی، معاشرتی (تہذیبی) غلامی میں جکڑی ہے اور سب سے خطرناک تہذیبی غلامی ہے، جس نے انسان کے شعور پر حملہ کرکے اس سے سوچنے اور جینے کا حق تک چھین لیا،پہلے فرد یا افراد کی خریدو فروخت ہوتی تھی مگر اب نئے انداز میں نئی شکل میں انسانوں کی تجارت صرف لوگوں کے گروہ کی شکل میں نہیں بلکہ ریاستوں اور قوموں کی شکل میں ہورہی ہے ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت کئی دیگر عالمی ادارے اسی تاک میں بیٹھے ہیں کہ کب کس ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہو اور وہ اپنے پنجے گاڑ ھ کر اس پر مسلط ہوجائیں، آج سری لنکا سمیت کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں اور یہ تجارت کئی سوسال قبل کی غلامی کی تجارت سے کئی درجے زیادہ سخت ہوچکی ہے ، آج سے 14سو سال قبل اس غلامی کی تجارت کو دین الٰہی نے چیلنج کیا تھا اور نہ صرف صرف چیلنج کیا بلکہ اس انسانوں کی خریدو فروخت ، اس غلامی کے خلاف جواز کےساتھ ساتھ مستقبل کی رہنمائی بھی فرمائی ۔ انہوںنے آخر میں کہاکہ مساوی انسانی حقوق کی پاسداری ، بین الاقوامی چارٹرز کے صرف پرچار کی بجائے عملی اقدامات تک عالم انسانیت کو غلامی یا غلام تجارت سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوگا۔
آپ کا تبصرہ