مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ" یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَھدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ " سورہ مائدہ آیۃ 67
" اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا "۔
اہل سنت کی متعدد کتابوں نیز تفسیر و حدیث اور تاریخ کی (تمام شیعہ مشہور کتابوں میں) بیان ہوا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
ان احادیث کو بہت سے اصحاب نے نقل کیا ہے، منجملہ: ”ابوسعید خدری“، ”زید بن ارقم“، ”جابر بن عبد اللہ انصاری“، ”ابن عباس“، ”براء بن عازب“، ”حذیفہ“، ”ابوہریرہ“، ”ابن مسعود“اور ”عامر بن لیلی“، اور ان تمام روایات میں بیان ہوا کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے متعلق ہے اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض روایات متعدد طریقوں سے نقل ہوئی ہیں، منجملہ:
حدیث ابوسعید خدری ۱۱طریقوں سے۔
حدیث ابن عباس بہی ۱۱ طریقوں سے۔
اور حدیث براء بن عازب تین طریقوں سے نقل ہوئی ہے۔
جن افراد نے ان احادیث کو (مختصر یا تفصیلی طور پر ) اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کے اسما درج ذیل ہیں:
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے اپنی کتاب ”ما نُزِّل من القرآن فی عليّ“ میں (الخصائص سے نقل کیا ہے، صفحہ۲۹)
ابو الحسن واحدی نیشاپوری ”اسباب النزول“ صفحہ۱۵۰۔
ابن عساکر شافعی ( الدر المنثور سے نقل کیا ہے، جلد دوم، صفحہ۲۹۸)
فخر الدین رازی نے اپنی ”تفسیر کبیر“ ، جلد ۳، صفحہ ۶۳۶ ۔
ابو اسحاق حموینی نے ”فرائد السمطین“ (خطی)
ابن صباغ مالکی نے ”فصول المہمہ“ صفحہ ۲۷ ۔
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدر المنثور ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۸ ۔
قاضی شوکانی نے ”فتح القدیر“ ، جلد سوم صفحہ ۵۷ ۔
شہاب الدین آلوسی شافعی نے ”روح المعانی“ ، جلد ۶، صفحہ ۱۷۲ ۔
شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے اپنی کتاب ”ینابیع المودة“ صفحہ ۱۲۰ ۔
بد ر الدین حنفی نے ”عمدة القاری فی شرح صحیح البخاری“ ، جلد ۸، صفحہ ۵۸۴ ۔
شیخ محمد عبدہ مصری ”تفسیر المنار“ ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۳۔
حافظ بن مردویہ (متوفی ۴۱۸ہ) (الدر المنثور سیوطی سے نقل کیا ہے) اور ان کے علاوہ بہت سے دیگرعلمانے اس حدیث کو بیان کیا ہے ۔
غدیر خم کا اہم اور تاریخي واقعہ
ہجر ت کے دسویں سال پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حج کا ارادہ کیا اور اپنے حج پر جانے کی سب کو خبر کی ۔
بہت سے گروہ مدینہ آگئے تاکہ مناسک حج آپ کے ساتھ بجالائیں اور آپ کی پیروی کریں ۔
حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام، حجۃ البلاغ، حجه الکمال اور حجه التمام(۱) یہ وہ نام ہیں جو ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس آخری حج کے رکھے گئے ۔
چوبیس یا پچیس ذی قعدہ کو شنبہ کے روز (جب ماہ ذی الحجہ کاچاند نظر آنے میں پانچ یا چھے روز باقی تھے)غسل اور لباس احرام باندھ کر مدینہ سے پیدل روانہ ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں کو بھی اونٹوں کے کجاوں پر سوار کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
تمام اہل بیت، مہاجرین و انصار اور عربوں کے دوسرے بہت سے قبائل آپ کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوتے ہیں(۳) ۔
آبلہ یا گرمی کی بیماری پھیلنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو آپ کی ہمراہی نصیب نہ ہوسکی لیکن اس کے باوجود اس قدر اژدھام تھا جس کی تعداد خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ، حجه الوداع کے حاجیوں کی تعداد ۹۰ ہزار یا اس سے بھی زیادہ بیان ہوئی ہے ۔
حج کے وقت اس اژدھام میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، اہل مکہ نیز یمن کی ایک جماعت حضرت علی بن ابی طالب(علیہ السلام) کی ہمراہی میں آپ کے ساتھ مکہ پہنچی(۴) ۔
مناسک حج کو انجام دینے کے بعد تمام حاجی مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ، راستہ میں ایک جگہ کانام جحفہ ہے جہاں سے مدینہ، مصر اور عراق کا راستہ الگ الگ ہوجاتا ہے اور اسی کے نزدیک ایک تالاب واقع ہے جس کا نام ”غدیر خم“ ہے ۔
اٹھارہ ذی الحجہ کو جمعرات (۵)کے روز جب یہ یہ قافلہ اس تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو خداوند عالم کی طرف سے جبرئیل ا مین نازل ہوتے ہیں : ”یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک“ (۶) ۔
ائے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو کامل طور سے لوگوں تک پہنچا دو ۔
خداوندعالم نے حکم دیا کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو چراغ ہدایت اور دین کاعلمبردار معین کردو اور سب کو آپ کی ولایت اور اطاعت کا حکم دو ۔
رسول گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے حکم دیا : جو لوگ آگے چلے گئے ہیں ان کو روکا جائے اور چو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے ۔
گرمی کا دن بہت زیادہ گرم تھا ، حاجیوں نے اپنی عبا کا آدھا حصہ سر پر اور آدھاحصہ اپنے پیروں کے نیچے رکھ رکھا تھا اور ایک درخت پر کپڑا ڈال کر اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر سایہ کررکھا تھا ، نماز ظہر کا وقت قریب ہو اتو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نماز پڑھائی ۔
نماز کے بعد حاجیوں(۸)کے درمیان کجاوں کے منبر پر تشریف لے گئے(۹) اوربلند آواز میں خطبہ ارشاد فرمایا : ”الحمد للہ و نستعینہ و نومن بہ، و نتوکل علیہ، و نعوذ باللہ من شرور انفسنا، و من سیئات اعمالنا، الذی لاھادی لمن اضل، ولا مضل لمن ھدی ،و اشھد ان لا الہ الا اللہ،و ان محمدا عبدہ و رسولہ“۔
اما بعد : ایھا الناس قد نبانی اللطیف الخبیر : انہ لم یعمر نبی الا مثل نصف عمر الذی قبلہ۔ و انی اوشک ان ادعی فاجیب، و انی مسئوول، و انتم مسئوولون،فماذا انتم قائلون؟
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس سے مدد مانگتے ہیں اور اس پرایمان رکھتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں، اپنے نفس اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اس کی پناہ مانگتے ہیں ۔ جس کوخداوند عالم گمراہ کرے اس کی کوئی ہدایت نہیں کرسکتا اور جس کی وہ ہدایت فرمائے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا،میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے رسول ہیں ۔
ائے لوگو! خداوند لطیف(بہترین تدبیرکرنےوالے(۱۰)) و خبیر(مصلحتوں کے جاننے والے) نے مجھے خبردی ہے : ہر نبی کی عمر اس سے پہلے والے نبی کی عمر سے آدھی ہے (۱۱) ۔ اور بہت جلد میں دعوت حق کولبیک کہنے والا ہوں،میری کچھ ذمہ داریاں ہیں اور تمہاری بھی اپنی ذمہ داریاں ہیں، تم کیا کہتے ہو؟
لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دین کی تبلغ کی اور ہمیںنصیحتیں کیں، اور اس سلسلہ میں آپ نے بہت زیادہ زحمتیں اٹھائی ہیں، خداوند عالم آپ کو جزائے خیر دے!
آپ نے فرمایا : ”الستم تشھدون ان لا الہ الا اللہ، و ان محمدا عبدہ و رسولہ و ان جنتہ حق و نارہ حق، و ان لموت حق، و ان الساعه آتیه لا ریب فیھا ، و ان اللہ یبعث من فی القبور؟“۔
کیا تم گواہی نہیں دیتے ہو کہ خداوندعالم کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں، اس کی بہشت، جہنم اور موت حق ہے اور یقینا قیامت آئے گی اور وہ مردوں کو زندہ کرےگا ۔
سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا : ”اللھم اشھد“ خداوندا ! گواہ رہنا ۔
اس کے بعد فرماتے ہیں: ”ایھا الناس الا تسمعون“ ۔ اے لوگو! کیاتم نے نہیں ن سن رہے ہو!
سب نے کہا : ہم سن رہے ہیں ۔
آپ نے فرمایا : فانی فرط علی الحوض و انتم واردون علی الحوض ، و ا ن عرضہ ما بین صنعاء و بصری، فیہ اقداح عدد النجوم من فضه، فانظروا کیف تخلفونی فی الثقلین(۱۲) ۔
میںتم سے پہلے (جنت اور)حوض (کوثر) پر پہنچوںگا اور تم بھی بہت جلد اسی حوض کے کنارے میرے پاس آو گے، وہ حوض ایسی ہوگاجس کافاصلہ صنعا (۱۳) اور بصری (۱۴) کے برابر ہوگا، لہذا میرے بعد ان دونوں سے تم کس طرح پیش آوگے ۔
کسی نے بلند آواز سے کہا : یا رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)یہ دو ”ثقل“ اور دو ”گرانقدر“ چیزیں کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا : ”الثقل الاکبر کتاب اللہ طرف بیداللہ عز و جل و طرف بایدیکم فتمسکوا بہ لا تضلوا ، والآخر الاصغر عترتی،۔ وان اللطیف الخبیر نبانی انھما لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض، فسالت ذلک لھما ربی“۔
”ثقل اکبر“ خدا کی کتاب ہے ،ایک طرف سے وہ خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسری طرف سے تمہارے ہاتھ میں ہے ،اس کو مضبوطی سے پکڑ لو تاکہ گمراہ نہ ہو سکواور ”ثقل اصغر“ میری ”عترت اور اہل بیت“ ہیں ۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے پاس حوض کوثرپر پہنچنے تک یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے اور میں نے بھی اپنے پروردگار سے یہی گذارش کی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہیں،(اور کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں) ۔
”فلا تقدموھما فتھلکوا، و لا تقصروا عنھما فتھلکوا“ ان دونوں سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاو گے اور ان دونوں سے دوری اختیار نہ کرنا اگر دوری اختیار کرو گے تو پھر بھی ہلاک ہوجاو گے ۔
اسی وقت آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑکر اتنابلند کیا کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نمودار ہوگئی اور لوگوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو پہچان لیا ۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : ”ایھا الناس من اولی الناس بالمومنین من انفسھم“؟ اے لوگو! مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ سزاوار کون ہے ؟
سب نے کہا : خداوندعالم اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ۔
آپ نے فرمایا : ”ان اللہ مولای ، و انا مولی المومنین،و انا اولی بھم من انفسھم ، فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔ خداوند عالم میرا سرپرست ہے اور میں مومنین کا سر پرست ہوں اور میں ان سے زیادہ ان پر حق رکھتا ہوں ، پس جس کا میں مولاہوں اس کے یہ علی مولا ہیں ۔
اور اس جملہ کی تین بار تکرار فرمائی ، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ چار مرتبہ تکرار کی ۔
اس کے بعد فرمایا : ”اللھم وال من والاہ ، و عاد من عاداہ، و احب من احبہ، و ابغض من ابغضہ (۱۵) و انصر من نصرہ، و اخذل من خذلہ، و ادر الحق معہ حیث دار۔ الا فلیبلغ الشاھد الغائب“۔
خدایا !جو ان کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ اور جو ان سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کر، جوبھی محبت اور خوشی سے ان کی عظمت کو قبول کرے تو بھی اس کی عظمت میں اضافہ کر اور جو بھی بغض و حسدکی وجہ سے ان کو ذلیل و خوار کرنا چاہے تو بھی اس کو ذلیل وخوار کر، جو ان کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو ان کی مدد نہ کرے تو بھی اس کی مدد نہ کر ،ان کو حق کا ملاک قرار دے اور اے لوگو! اس بات کو ان لوکوں تک پہنچا دینا جو یہاں پر نہیں ہیں ۔
ابھی تمام حاجی منتشر نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین اس آیت کو لے کر نازل ہوئے : ”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی“ (۱۶)آج تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا اوراپنی نعمتوں کو تمہارے اوپر تمام کردیا ۔
یہاں پر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں : ”اللہ اکبر علی اکمال الدین ، واتمام النعمه، و رضا الرب برسالتی، والولایه لعلی من بعدی“۔ اللہ اکبر!اکمال دین ، اتمام نعمت پر اللہ اکبر،میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر خدا راضی ہے ۔
اس کے بعد لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی (علیہ ا لسلام) کو تبریک و تہنیت دینا شروع کیا ۔
ابوبکر اور عمر نے تمام صحابہ سے پہلے آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا : ”بخ بخ لک یا بن ابی طالب، اصبحت وامیست مولای و مولی کل مومن و مومنه“
مبارک ہو ابوطالب کے فرزند، آج سے ہمیشہ کے لئے تم میرے اورہر مومن مرد وعورت کے مولی ہوگئے ۔
ابن عباس کہتے ہیں : ”وجبت واللہ فی اعناق القوم“ خدا کی قسم ”حضرت علی (علیہ السلام) کی ولایت“ لوگوں پر واجب ہوگئی ۔
یہ واقعہ غدیر کا خلاصہ ہے جس پر امت اسلامی متفق ہے تاریخ اسلام میں اس کے علاوہ کوئی اورغدیر کا واقعہ موجود نہیں ہے ،اگر کسی کے سامنے ”روز غدیر“ کے متعلق کوئی بات کریں تو اس کے ذہن میں یہی واقعہ آئے گااوراگر ”غدیر کی جگہ“ کہا جائے تو سب کے ذہن میں ”خم“ کا یہی تالاب آئے گا جو ”جحفہ“ کے نزدیک ہے ۔
تمام محققین اور دانشور اس نظریہ کو قبول کرتے ہیں(۱۷) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ " حجه البلاغ“ نام رکھنے کی وجہ قرآن کریم کی یہ آیت”یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک“ ہے، اسی طرح ”حجه الکمال“ اور ”حجه التمام“ نام رکھنے کی وجہ یہ آیت ”الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا“ ہے ۔
۲۔ بدن پر تیل لگانا ۔
3 ـ الطبقات، ابن سعد 3: 225 [2/173]; الامتاع، مقریزى: 510; ارشاد الساری 6: 429 [9/426].
4 ـ السیره الحلبیّه 3: 283 [3/257]; السیره، احمد زینى دَحْلان 3:3 [2/143]; تاریخ الخلفاء، ابن جوزى: جزء چهارم; تذکره خواصّ الاُمّه: [ص30]; دائره المعارف، فرید وجدى 3: 542.
۵۔ حدیث غدیر کے بعض راویوں کی وضاحت کی بنیاد پر جیسے ”براء بن عازب“۔
۶۔ مائده: 67.
۷۔ عبارت میں اس طرح بیان ہوا ہے : ”و نھی عن سمرات خمس متقاربات دوحات عظام“۔ ”دوحه“ کے معنی بڑے درخت کے ہیں، جہاں بھی اس مناسبت سے ”دوحه“ اور ”دوحات“ کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مراد یہی جگہ اور غدیر کا واقعہ ہوتا ہے ۔
۸۔ مجمع الزوائد، حافظ هیثمى 9: 106.
۹۔ ثمار القلوب: 51 [ص 636، شماره 1068].
۱۰۔ ”لطیف“ کے ایک معنی ”لطیف التدبیر“ بیان ہوئے ہیں، لہذا ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر یہی معنی مناسب ہیں، اور ہم نے اس کو بہترین تدبیر کرنے والا ترجمہ کیا ہے ،ملاحظہ ہو،تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص ۱۲۸، ۱۰۳ آیت کے ذیل میں ۔
۱۱۔ یہ عبارت شیعوں کی کتابوں میں نہیں ملی اوراس کے معنی بھی واضح نہیں ہیں ۔
۱۲۔ ”ثقلین“ ، ازہری،ثعلب، ابن اثیر اور فیروز آبادی جیسے لغویین کی تصریح کی بناء پر ”ثَقَلَین“ (ث اور ق پر زبر کے ساتھ) صحیح ہے اور ہر طرح کے ”عظیم اور نفیس امر“ کو ثقل کہتے ہیں،زاد راہ کو بھی ثقل کہا جاتا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اس کا مصدر ”ثقل“ ہے لہذا قرآن و عرت کو ”ثقلین“کہنے کی تین دلیلیں ہوسکتی ہیں:
الف : ان کی بزرگی، عظمت اور قدر وقیمت کو بیان کرنے کیلئے ان دونوں کو ثقلین کہا ہے ۔
ب : ان دونوں سے تمسک اور عمل کرنا ، آخرت کے سفر کیلئے زاد راہ ہے ۔
ج : ان دونوں پر عمل اورتمسک کرنا سخت اور ثقیل ہے ۔ مراجعہ کریں:
۱۳۔ ”صنعا“،یمن کا پایتخت(راجدھانی) ہے ۔
۱۴۔ یہ دمشق کا ایک دیہات ہے جو آج ”کوره حوران“ کے نام سے مشہور ہے ۔
۱۵۔ ”ولایت “،دوستی کی اس قسم کو کہتے ہیں جس میں نصرت و مدد پائی جاتی ہو اور اس کی نقیض ،”عداوت“ ہے ،یعنی نصرت اور مدد کرنے سے دوری اور دشمنی اختیار کرنا ۔
لیکن محبت ، دوستی کی اس قسم کو کہتے ہیں جس میں عظمت اور بزرگی پائی جاتی ہے اور اس کی نقیض ”یغضه“ ہے ،یعنی ایسی دشمنی جس میں تحقیر اور توہین کا ارادہ ہو ، مراجعہ کریں:
۱۶۔ مائده: 3.
۱۷۔ گزیده اى جامع از الغدیر، صفحه 41.
آپ کا تبصرہ