مہر خبررساں ایجنسی نے اصوات العراق سائٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ عراقی حکومت کے ترجمان علی الدباغ نے کہا ہے کہ عراقی حکومت نے عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی معاہدے کو منظور کرنے کے لئے عراقی پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے ۔ عراق اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدہ اب عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے معاہدے میں تبدیل ہوگيا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عراق پڑوسی ممالک پر حملہ کے مرکز میں تبدیل نہیں ہوگا اور کسی کو عراق کی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لی دباغ نے کہا کہ عراق کی پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے بعد اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے عراقی صدارتی کونسل کے دستخط ضروری ہیں جس میں عراق کے صدر اور ان کے دو نائب صدور شامل ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فوجی سنہ 2011ء کے آخر تک عراق کی سرزمین سے نکل جائیں گے اور اگر عراقی سکیورٹی فورسز اس سے پہلے ہی عراق امور سنبھالنے کی مہارت حاصل کرلیں تو عراقی حکومت مذکورہ بالا تاریخ سے پہلے بھی امریکی فوجیوں کا انخلاکا مطالبہ کرسکتی ہے۔علی دباغ نے کہا کہ امریکی سکیورٹی انخلاء کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد عراق سلامتی کونسل سے کہے گا کہ وہ ساتویں فصل میں اتحادی فوج کو تفویض کئے گئے اختیارات کو منسوخ کردے۔
واضح رہے کہ عراق کے سابق معدوم صدرصدام نے جب کویت پر حملہ کیا تھا اس وقت سکیورٹی کونسل نے عراق کو اقوام متحدہ کی ساتویں فصل کے تحت قراردیدیا تھا اور عراق کو بین الاقوامی سلامتی کے لئے خطرہ قراردیکر اس کے خلاف طاقت کے استعمال کوجائز قراردیا اس کے ساتھ عراق کے عظيم سرمایہ کو بھی عالمی بینکوں میں منجمد کرنے کا حکم دیدیا تھا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عراق کےسابق معدوم صدر صدام کی غلط پالیسیوں کا تاوان عراقی عوام اب بھی ادا کررہے ہیں اگر عراق کےمعدوم صدرصدام ایران پر آٹھ سالہ مسلط جنگ کے بعد کویت پر حملہ نہ کرتا تو امریکہ کو اپنی فوج مشرق وسطی میں بھیجنے کا بہانہ نہ ملتا اور نہ ہی سعودی عرب اور کویت امریکہ سے فوجی مدد طلب کرتے لیکن کیا کیا جائے کہ عرب حکومتوں نے ہمیشہ اپنے عوام کے لئے مشکلات ہی پیدا کی ہیں عرب ممالک ہمیشہ سے ہی اسلام نواز نہیں بلکہ مغرب نواز رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ