مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عبدالجبار سعید نے بدھ کے روز قدس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے سے متعلق جاری بات چیت پر خصوصی روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ تمام شامل فریق اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اکثر و بیشتر شرائط پر عمل نہیں کیا ہے۔
پریس ٹی وی کے مطابق، سعید نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی تحویل کے حوالے سے حماس کے کردار پر حیرت کا اظہار کیا۔
انہوں نے زور دیا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران بھی، اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی شہریوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین کا قتل جاری رکھا۔
سعید نے بتایا کہ غزہ کے خاندان سردیوں کے ایام میں مناسب پناہ گاہوں، موبائل گھروں یا ملبہ ہٹانے والے سامان کی عدم فراہمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ غزہ میں داخل ہونے والا زیادہ تر سامان امدادی گروہوں کے بجائے تاجروں کے ذریعے فراہم کیا جا رہا ہے۔
سعید نے ثالثوں کی جانب سے دوسرے مرحلے کے بارے میں واضح وژن کی کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے اصرار کیا کہ حماس نے اپنی ضروریات پر واضح مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔
انہوں نے مجوزہ "امن کونسل" اور "بین الاقوامی استحکام فورس" کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، اور کسی بھی ایسے مینڈیٹ کو مسترد کر دیا جو فلسطینی حاکمیت کو کمزور کرے۔
اس عہدیدار نے پوچھا کہ اسرائیل کی جانب سے پہلے مرحلے کے وعدوں کو پورا کیے بغیر جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنا کیسے ممکن ہے؟
انہوں نے غزہ کے تعمیر نو کے لیے ایک ایسی فلسطینی انتظامیہ کی ضرورت کا اعادہ کیا جو آزادانہ طور پر کام کرے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ براہ راست رابطہ کر سکے۔
سعید نے واضح کیا کہ حماس اگرچہ ہتھیاروں کے مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن اسے ایک قومی فریم ورک کے اندر ہونا چاہیے جو فلسطینیوں کے حقوق کا احترام کرے۔
عہدیدار نے کہا کہ حماس کا مؤقف اٹل ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ ہتھیاروں سے دستبرداری مزاحمت کی روح نکالنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہتھیاروں کا مسئلہ فلسطینی ریاست سے منسلک ہے۔
آپ کا تبصرہ