مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سوڈان اپریل 2023 سے ایک شدید اور پیچیدہ مسلح تنازعے کا شکار ہے، جب ریپڈ سپورٹ فورسز نے ملک کی قانونی حکومت اور فوج کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے دارالحکومت خرطوم سمیت متعدد شہروں پر حملے شروع کیے۔ اس بغاوت نے جلد ہی ایک وسیع انسانی بحران اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی، جس میں شہری آبادی کو نشانہ بنانا، رہائشی علاقوں پر بمباری، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور بڑے پیمانے پر انسانی نقل مکانی جیسے واقعات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی اداروں اور میڈیا رپورٹس میں RSF کو بیرونی مالی اور عسکری پشت پناہی ملنے کے شواہد سامنے آتے رہے ہیں، جن میں خاص طور پر متحدہ عرب امارات کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ سوڈانی حکومت نے ان الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرایا ہے، اور باضابطہ طور پر عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ RSF کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔
بحرِ احمر کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے سوڈان جغرافیائی طور پر انتہائی اہم ملک ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی مقابلہ آرائی کے باعث اس خطے کی صورتِ حال مزید حساس ہو جاتی ہے، مگر سوڈان واضح کرچکا ہے کہ وہ اپنی قومی خودمختاری کو کسی بیرونی ایجنڈے کے تابع نہیں کرے گا۔
مہر نیوز ایجنسی سے خصوصی گفتگو میں عبدالعزیز حسن صالح طہ نے عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سوڈانی عوام کے خلاف سنگین جرائم پر عالمی برادری کا تماشائی بنے رہنا باعثِ افسوس ہے۔ سفیر کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے مسلح گروہوں کو مالی اور عسکری امداد کے ٹھوس شواہد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔
ذیل میں عبدالعزیز طہ کے انٹرویو کا متن پیش کیا جاتا ہے:
اس وقت سوڈانی مسلح افواج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان لڑائی کے مرکزی محاذ کن علاقوں میں مرکوز ہیں اور ان جھڑپوں کے پیچھے کیا اسٹریٹجک مقاصد کارفرما ہیں؟
عبدالعزیز طہ: جیسا کہ آپ جانتے ہیں، سوڈان پر یہ جارحیت 15 اپریل 2023 کو شروع ہوئی۔ دہشت گردوں نے ملک کی قانونی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے، صرف سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنا ہی نہیں چاہتی تھی بلکہ سوڈانی قوم کی شناخت، ثقافت، اقدار اور اخلاقیات کو بھی نشانہ بنا رہی تھی۔ اپنے غیر انسانی اقدامات کے ذریعے انہوں نے ایسے جرائم انجام دیے جو بلاشبہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان گروہوں نے ثقافتی مراکز، میوزیم، یونیورسٹیاں، اسکول اور مذہبی مقامات جن میں مساجد بھی شامل ہیں، تباہ کر دیے، بلکہ بےگناہ نمازیوں کو شہید کیا۔ یہاں تک کہ گرجا گھر بھی ان کی بربادی سے محفوظ نہ رہ سکے۔
اس منظم اور منصوبہ بند جارحیت کے مقابلے میں سوڈانی عوام نے ثابت قدمی، بہادری اور قربانی کے ساتھ فوج، مسلح افواج اور ان کی معاون یونٹس کا بھرپور ساتھ دیا۔ دو سالہ جنگ کے دوران وہ ان باغی اور دہشت گرد گروہوں کو جو غیر ملکی کرائے کے جنگجوؤں اور بعض ملکوں کی مالی و عسکری پشت پناہی کے ساتھ آئے تھے، سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور مختلف ریاستوں کے کئی دیگر شہروں سے پسپا کرنے میں کامیاب رہے۔
تاہم حالیہ عرصے میں دو سالہ محاصرے کے بعد ان دہشت گرد گروہوں نے الفاشر شہر میں گھس کر بدترین جرائم اور قتلِ عام کیے جنہیں پوری دنیا نے دیکھا اور ان مظالم کی کوریج کی۔ بدقسمتی سے، شمالی دارفور میں واقع الفاشر اور شمالی کردفان کے شہر بارہ میں ہونے والے ان جرائم پر عالمی برادری اور علاقائی و بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سوڈان کی حکومت اور عوام پوری دنیا، خصوصاً آزاد میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان باغی اور دہشت گرد گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دیا جائے اور ان ممالک کی مذمت کی جائے جو انہیں پیسہ، اسلحہ اور کرائے کے جنگجو فراہم کر کے سوڈانی عوام کے قتلِ عام میں شریک ہیں۔
فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان سیاسی اختلافات مکمل جنگ میں کیسے تبدیل ہوئے؟
عبدالعزیز طہ: حقیقت یہ ہے کہ سوڈان میں جو کچھ ہوا وہ فوج اور اس باغی گروہ کے درمیان کوئی سیاسی اختلاف نہیں تھا۔ نہ ہی یہ فوج کے سربراہ جو سوڈان کی خودمختار کونسل کے صدر ہیں اور اس دہشت گرد گروہ کے لیڈر کے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا تھا۔ اصل معاملہ ایک منظم جارحیت اور منتخب و قانونی حکومت کے خلاف پہلے سے تیار شدہ بغاوت کا منصوبہ تھا یعنی بیرونی ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ طاقت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
جب سوڈانی فوج نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا تو جھڑپیں پوری قوم کے خلاف ایک مکمل جنگ میں بدل گئیں۔ عام طور پر جنگیں دو مسلح قوتوں کے درمیان ہوتی ہیں، لیکن سوڈان میں اصل نشانہ نہتے شہری رہے۔ قتل و غارت، رہائشی علاقوں پر بمباری، بنیادی ڈھانچے اور سول تنصیبات جیسے اسپتال، پانی اور بجلی کے مراکز کی تباہی، عام لوگوں کی بے دخلی، گھروں اور بینکوں حتی کہ مرکزی بینک پر قبضہ، اور گاڑیوں، رقم، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ساز و سامان تک کی لوٹ مار یہ سب اس جنگ کا حصہ رہے۔ مذہبی مقامات بھی ان حملوں سے محفوظ نہ رہے، اور خواتین و بچیوں کو بھی ان مجرموں کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے یہ صرف فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں بلکہ ایک باغی اور دہشت گرد گروہ کی کارروائی ہے، جو مختلف خطوں اور ممالک سے لائے گئے کرائے کے جنگجوؤں کے ذریعے سوڈان کی آبادی کا ڈھانچہ بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
آپ نے خود بھی حالیہ ہفتوں میں وہ ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں یہ عناصر کس طرح نہتے اور بے گناہ لوگوں کا قتل کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ جنگ کسی خودمختار ریاست کی باقاعدہ فوج اور ایک سادہ سے باغی گروہ کے درمیان نہیں ہے؛ یہ اُس گروہ کی جنگ ہے جسے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔
متعدد رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ریپڈ سپورٹ فورسز کو عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کی ہے۔ اس حوالے سے کیا شواہد موجود ہیں اور خرطوم کا سرکاری مؤقف کیا ہے؟
عبدالعزیز طہ: سوڈانی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کو باضابطہ دستاویزات اور شواہد پیش کیے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ان باغی اور دہشت گرد گروہوں کو مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔ اس امداد میں اسلحہ خریدنے کی فنڈنگ اور کرائے کے جنگجوؤں کی بھرتی میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔
یہ رپورٹس اقوام متحدہ کی بعض کمیٹیوں، متعدد مغربی ممالک کی تحقیقات اور معتبر امریکی و یورپی میڈیا کی رپورٹوں میں بھی تصدیق شدہ ہیں۔ یہ تمام شواہد سوڈان کے مستقل مشن کی جانب سے نیویارک میں اقوام متحدہ کو باضابطہ طور پر جمع کرائے گئے ہیں، اور ان کی صداقت پر کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔
ایران اور سوڈان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد سیاسی، اقتصادی اور انسانی شعبوں میں تعاون مضبوط کرنے کے لیے دونوں ممالک نے کیا عملی اقدامات کیے ہیں، اور سوڈان نے ان شعبوں میں کس طرح ترجیحات طے کی ہیں؟
عبدالعزیز طہ: ہمارے اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ تعلقات قریبی، مثبت اور دیرینہ ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے مشترکات پائے جاتے ہیں۔ دونوں مسلمان ممالک ہیں، OIC، غیر جانبدار تحریک اور اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ البتہ یہ تعلقات آٹھ سال 2016 سے 2024 تک منقطع رہے، لیکن گزشتہ سال 2024 ان کی بحالی ہوئی؛ سوڈان نے تہران میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولا اور ایران نے بھی بندرگاہی شہر پورٹ سوڈان میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ قائم کیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ اور گہرے ہیں۔ اس مختصر مدت میں سفارتی، اقتصادی اور تجارتی روابط بڑھانے کے لیے مثبت اقدامات کیے گئے ہیں۔ دونوں ممالک اور دونوں حکومتوں نے معیشت، تجارت، ٹیکنالوجی اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے عزم کی تجدید کی ہے۔ تاہم، چونکہ تعلقات کی بحالی کو ابھی صرف ایک سال ہوا ہے اور یہ بھی ایسے وقت میں جب 2023 میں جنگ شروع ہوئی تھی اور اس وقت ایران و سوڈان کے تعلقات منقطع تھے لہٰذا ایران کی جانب سے کسی قسم کی فوجی مدد کا موقع پیدا ہی نہیں ہوا۔ اسی لیے میں تاکید سے کہتا ہوں کہ سوڈان اور ایران کے تعلقات مکمل طور پر معمول کے تعلقات ہیں، جیسے سوڈان کے دیگر ممالک سے ہیں، اور یہ باہمی احترام اور قومی خودمختاری کی بنیاد پر قائم ہیں۔
بحیرہ احمر کے کنارے واقع ہونے کے باعث سوڈان میں جاری تنازعے کے تسلسل میں علاقائی اور عالمی طاقتوں کی رقابت کیا کردار ادا کرتی ہے؟
عبدالعزیز طہ: سوڈان بحیرہ احمر کے کنارے واقع ہے اور اس کی ساحلی پٹی تقریبا 850 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ ایک نہایت اہم تجارتی اور اقتصادی راہداری ہے۔ ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے سوڈان بحیرہ احمر کے دیگر ساحلی ممالک کے ساتھ مل کر سمندری سلامتی کے لیے تعاون کرتا ہے اور اپنے علاقائی پانیوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھتا ہے۔ یقینا بڑی طاقتوں اور کچھ علاقائی ممالک کے بھی اس بحری راستے میں مفادات اور خواہشات موجود ہیں۔ تاہم، سوڈان اپنی قومی خودمختاری کو کسی بیرونی ایجنڈے کے نفاذ کا آلہ نہیں بننے دے گا۔
آپ کا تبصرہ