مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کار محمد علی صنوبری نے غزہ میں جنگ بندی کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی حکمت عملی کے بارے میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک متنازع سیاسی شخصیت بن چکے ہیں۔ اپنے ملک میں بھی ان کی کوئی عزت نہیں۔ایسے شخص سے دیگر اقوام کی عزت و وقار کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ صہیونی حکومت کے مظالم کی مسلسل حمایت کی وجہ سے آج امریکہ اور مغرب کی ساکھ خطرے میں ہے اور ان کا عالمی کردار اب زوال کے دہانے پر ہے۔
صنوبری نے کہا کہ یورپ اور مغربی ممالک میں ہونے والے لاکھوں افراد کے مظاہرے، عالمی سطح پر یکجہتی کے قافلے اور امدادی جہازوں کی روانگی نے اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے واضح کیا ہے۔ مغربی ممالک خود تسلیم کرچکے ہیں کہ مشرق وسطی میں تبدیلی کی تمام کوششیں اسرائیل پر منحصر تھیں، اور اب یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہے۔
صنوبری نے مغربی اور امریکی حکام کے حالیہ موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اور نتن یاہو کی بے قراری اور غیر متوازن حرکات دراصل اس تقسیم کار کا حصہ ہیں جو عالمی طاقتیں اپنے مہرے استعمال کرتے ہوئے انجام دیتی ہیں۔ ہمیں غزہ میں جنگ بندی جیسے فنی معاملات میں الجھ کر اصل مسئلے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اصل مسئلہ صرف غزہ نہیں بلکہ بیت المقدس اور فلسطین پر جاری قبضہ ہے۔
طوفان الاقصی صہیونی مظالم کا ردعمل
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی غزہ میں برسوں سے جاری محاصرے اور دباؤ کا ایک فطری ردعمل تھا یہ آزادی اور زندگی کی ایک جدوجہد تھی۔ لیکن مغربی طاقتیں کوشش کر رہی ہیں کہ پورے فلسطینی مسئلے کو صرف غزہ تک محدود کر دیا جائے تاکہ اصل موضوع، یعنی قبضہ اور فلسطینیوں کی واپسی کو پس پشت ڈال دیا جائے۔
صنوبری نے کہا کہ جعلی صہیونی حکومت 1947 اور 1948 میں قائم کی گئی، جس نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کیا اور وہاں اپنی بستیاں قائم کیں۔ اس قبضے کے نتیجے میں بیت المقدس جو مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے چھین لیا گیا، اور فلسطینی قوم سے جینے کا حق بھی سلب کر لیا گیا۔ یہ وہ قوم ہے جس کی اپنی تاریخ، سرزمین اور شناخت ہے، جبکہ قابض صہیونی نہ تاریخ رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی حقیقی شناخت۔ آج غزہ حقِ زندگی اور آزادی کے لیے لڑ رہا ہے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں جینے دو، جبکہ غزہ، یمن اور جنوبی لبنان کے عوام بھی جینا چاہتے ہیں، ترقی کرنا چاہتے ہیں، لیکن عالمی طاقتیں انہیں یہ حق نہیں دیتیں۔ 1947 سے پہلے خطے میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا، لیکن اس کے بعد سازشوں اور فتنوں کا آغاز ہوا۔
صنوبری نے مغربی دانشوروں کے اعترافات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جرمن فلسفی ہابرماس نے درست نشاندہی کی ہے کہ مغرب خود ہی بحث کے موضوعات طے کرتا ہے تاکہ عوامی رائے پر اثر انداز ہوسکے۔ آج بھی غزہ میں جنگ بندی اور مغربی سفارتی اقدامات ہمیں اصل مسئلے یعنی قبضہ اور بیت المقدس کی آزادی سے غافل نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی نظام اور صہیونی حکومت کی برداشت اور استقامت میں شدید کمی آچکی ہے۔ خود مغربی دانشوروں نے 2024 میں اعتراف کیا کہ صہیونی حکومت مزاحمت کے سامنے شکست کھاچکی ہے۔ نتن یاہو نے بھی کہا کہ ہم ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اب جب کہ مغرب عالمی رائے عامہ کو اپنے خلاف دیکھ رہا ہے، وہ مجبور ہے کہ اپنی جارحیت میں کمی لائے اور اپنی خراب شدہ ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کرے، لیکن یہ چہرہ اب قابل اصلاح نہیں رہا۔
مقاومت کا محور تنظیمیں نہیں عوام ہیں
بین الاقوامی امور کے ماہر نے حالیہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت ایک نظام ہے، جس کی فلسطینی عوام کے اندر جڑیں گہری ہیں۔ حماس، جہاد اسلامی اور سینکڑوں دیگر مزاحمتی گروہ اسی فلسطینی سرزمین سے جنم لیتے ہیں۔ اگر مغربی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ کسی ایک گروہ کے ہتھیار ڈالنے سے مسئلہ ختم ہوجائے گا، تو وہ سخت غلطی پر ہیں۔ حماس نہ کوئی حکومت ہے اور نہ ہی روایتی معنوں میں کوئی فوج؛ بلکہ یہ ایک عوامی تحریک ہے۔ فرض کریں کہ حماس اور دیگر تنظیموں کا نام ختم کردیا جائے، تب بھی فلسطینی عوام کے اندر موجود مزاحمتی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ یہی عوام ایسی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ دشمن پر یہ یہ حقیقت واضح ہونا چاہئے کہ اس خطے میں مزاحمت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
صنوبری نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ حماس غزہ کی تعمیر نو یا انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کچھ سیاسی حکمتِ عملی اختیار کرے تاکہ غزہ، جو دو سال سے بمباری اور کئی دہائیوں سے پابندیوں کا شکار ہے، دوبارہ طاقت حاصل کرسکے۔ حماس، مزاحمتی گروہوں اور کچھ ہمسایہ ممالک کی جانب سے مختلف تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ میرے خیال میں ان تجاویز کا کوئی مشترکہ نتیجہ قابل عمل ہوسکتا ہے، نہ کہ وہ منصوبہ جو ٹرمپ چاہتے ہیں یعنی ایسے افراد کو لانا جیسے ٹونی بلیئر، جن کی ماضی کی کارکردگی اور کردار پر سوالات اٹھتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ کوئی بھی فریق اپنی تمام خواہشات پوری نہیں کرسکے گا؛ بلکہ دونوں طرف سے کچھ نہ کچھ ملا کر ایک درمیانی حل سامنے آئے گا۔
صنوبری نے مزید کہا کہ حماس نے فلسطینیوں میں سے کچھ افراد کے نام تجویز کیے ہیں، وہ شخصیات جن پر تمام گروہوں اور فلسطینی عوام کو اعتماد ہے اور کہا ہے کہ اس فہرست پر غور کیا جائے۔ مصر، قطر اور دیگر ممالک بھی ممکنہ طور پر اپنی تجاویز پیش کریں گے؛ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مخالف فریق اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہے گا اور صرف موجودہ بحران سے نکلنے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے فلسطینی عوام کے مستقل موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی کسی بھی شکل میں بیرونی قبضے کو قبول نہیں کریں گے، اور نہ ہی صہیونی، یورپی یا کثیرالملکی قابضین کے زیراثر آئیں گے۔ بعض منصوبوں میں تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی افواج تعینات کی جائیں، لیکن اس تجویز کو فلسطینی عوام قبضے کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ مغربی ممالک کا ایک ماڈل یہ ہے کہ غزہ میں ایک نیا قابض حکمران تعینات کیا جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ فلسطینی عوام اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگرچہ عالمی سطح پر کچھ حمایتی باتیں کرسکتے ہیں، لیکن عملی طور پر اکثر ممالک غزہ میں بین الاقوامی افواج کو حکمران کے طور پر دیکھنے کے خواہشمند نہیں ہوں گے۔ ایسی افواج صرف امداد یا سہولت کاری کا کردار ادا کرسکتی ہیں، لیکن غزہ پر حکمرانی کے لیے انہیں کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے لیے مختلف شخصیات پر مشتمل عبوری حکومت یا مقامی فلسطینی انتظامیہ قابل قبول ہوسکتی ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر کچھ تجاویز سامنے آسکتی ہیں، لیکن یہ ناقابل قبول ہوگا کہ مزاحمتی گروہوں کو ہتھیار سے محروم کر دیا جائے حتی کہ پولیس کے طور پر بھی ان کو کوئی کردار نہیں دیا جائے تو پھر غزہ کی پولیس کون بنے گا؟ فلسطینی عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ قبضے کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے، چاہے اس کا ظاہری روپ بدل جائے۔ اگر غزہ میں کسی غیر فلسطینی فوجی حکمران یا مسلح قوت کی موجودگی کا امکان پیدا ہوا، تو جو لوگ ایسے منصوبے نافذ کریں گے، انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
اسرائیل میں پکتا ہوا لاوا اور امریکی پریشانی
امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے صنوبری نے کہا کہ امریکہ میں ڈیموکریٹ پارٹی نے خطے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کیا تھا، لیکن ریپبلکن جماعت کے کچھ عناصر اس منصوبے کو تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ امریکی حکومتی حلقوں نے ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور نتن یاہو کے ساتھ حد سے زیادہ تعاون اس حکومت کے جلد خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ نتن یاہو پر قابو پائیں تاکہ وہ جلد بازی میں ایسے اقدامات نہ کرے جو خود اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہوں۔ صہیونی حکومت ایک انتہا پسند نظام ہے جو بغیر سوچے سمجھے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ ہجرت معکوس اور حتمی شکست کے خوف میں مبتلا رہتی ہے۔ ایسے حالات میں نئے منصوبوں کی منظوری صہیونی حکومت کی نادانی اور اس کے اصل چہرے کو ظاہر کرتی ہے۔ ٹرمپ اس عمل کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اسرائیل عالمی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھ سکے۔ ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا جائے، پہلے غزہ کے مرحلے سے نکلا جائے اور پھر حالات کو مستحکم کیا جائے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کی جلد بازی اور فلسطین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی خواہش نے ان کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے واضح کردیا ہے۔ وہ نہ تو امن کے خواہاں ہیں اور نہ ہی حالات کو معمول پر لانے میں سنجیدہ۔ امریکی شخصیات جیسے ونس اور روبیو کی مسلسل ملاقاتوں اور دوروں کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کی بگڑتی ہوئی تصویر کو سنبھالا جاسکے اور اس کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ لیکن عالمی سطح پر اسرائیل اور اس کے حامیوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ یہ سفارتی سرگرمیاں صہیونی حکومت کی مشکلات حل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوں گی۔
صنوبری نے کہا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو اصل تشویش فلسطینی مزاحمت سے نہیں، بلکہ اسرائیلی حکومت کے اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے ہے، جو اس کے جلد بازی پر مبنی فیصلوں اور جارحانہ رویوں کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ اس وقت اسرائیلی حکومت کے اندر ایک خاموش آتش فشاں جنم لے رہا ہے، جو لیکود پارٹی، نیتن یاہو اور ان کے غیر ملکی حامیوں جیسے ٹرمپ کے خلاف ہے۔ یہ ناراضگیاں 7 اکتوبر کے بڑے واقعے کی پیش گوئی میں ناکامی اور مزاحمت کے سامنے مسلسل شکستوں کا نتیجہ ہیں، اور جلد ہی یہ غصہ کھل کر سامنے آجائے گا۔
صنوبری نے مزید کہا کہ اب تک جنگی حالات نے ان اندرونی اختلافات کو چھپائے رکھا تھا، اور اسرائیل کی جنگی حکومت نے وقتی طور پر انہیں قابو میں رکھا۔ لیکن اب ٹرمپ اور مغربی حلقے اس اندرونی بحران کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ان کی اصل پریشانی مزاحمت نہیں بلکہ اسرائیلی نظام کا اندرونی انہدام ہے۔ ان تمام حالات میں مزاحمتی قوتیں سب سے زیادہ منطقی اور سنجیدہ کردار ادا کررہی ہیں۔ انہوں نے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور دیانتداری سے اپنے مؤقف پر قائم رہی ہیں۔ اس کے برعکس، صہیونی حکومت نے بارہا وعدہ خلافی کی ہے اور دوغلی و فریب پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے بحران کو مزید بڑھایا ہے۔
آپ کا تبصرہ