8 اکتوبر، 2025، 9:26 PM

ایران کی خلائی صنعت میں شاندار پیش رفت، عالمی طاقتوں کی صف میں شامل

ایران کی خلائی صنعت میں شاندار پیش رفت، عالمی طاقتوں کی صف میں شامل

روس، چین، امریکہ اور جاپان جیسے ممالک کی صف میں شامل ہوکر ایران نے خلائی صنعت میں عالمی مقام حاصل کر لیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے خلائی ٹیکنالوجی میں ایک اور تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ان چند ممالک میں شامل ہوگیا ہے جو سیٹلائٹ کی تیاری سے لے کر اسے خلا میں بھیجنے تک کے تمام مراحل خود انجام دیتے ہیں۔

ایرانی خلائی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر حسن سالاریہ کے مطابق، دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں سے صرف دس یا گیارہ ممالک کے پاس مکمل خلائی صلاحیت ہے، جن میں روس، چین، امریکا، چند یورپی ممالک اور جاپان شامل ہیں۔ ایران اب ان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔ ایران نے یہ مقام مکمل طور پر ملکی انجینئروں اور مقامی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلائی ٹیکنالوجی انتہائی پیچیدہ اور حساس شعبہ ہے، لیکن ایران نے مرحلہ وار ترقی کرتے ہوئے اب سیٹلائٹ اور لانچنگ وہیکل، دونوں کی تیاری میں خودکفالت حاصل کرلی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر سادہ نظر آنے والے سیٹلائٹس درحقیقت نہایت دقیق اور پیچیدہ ڈیزائن رکھتے ہیں یہاں تک کہ جدید ترین لیبارٹریوں میں بھی مدار کے ماحول کو مکمل طور پر دہرانا ممکن نہیں۔ ایران کی یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی اجارہ داری توڑتے ہوئے علمی خودمختاری اور خلائی طاقت کے نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک تصویربرداری کے میدان میں شاندار پیش رفت کرچکا ہے۔ ابتدا میں ایران کے سیٹلائٹس صرف ایک ہزار میٹر یا چند سو میٹر کی واضح تصاویر لیتے تھے، مگر اب یہ صلاحیت بڑھ کر چند میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ ان سیٹلائٹس کی تیاری مختلف سرکاری اداروں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز کے ماہر انجینئروں نے کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایران کے پاس 2000 کی دہائی کے آغاز میں اس شعبے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ لیکن جیسے ہی ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں سیٹلائٹ سازی کے منصوبے شروع ہوئے، انسانی وسائل کی تربیت کا ایک نیا سلسلہ بھی وجود میں آیا۔

سالاریہ نے کہا کہ ایک سیٹلائٹ کی تیاری عام طور پر دو سے چار سال میں مکمل ہوتی ہے، کیونکہ اس میں ٹیکنالوجی بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ اس میدان میں سب سے اہم سنگ میل 2009 میں "امید" سیٹلائٹ کی کامیاب لانچنگ تھی، جس سے ملک کو پہلی بار یہ اعتماد حاصل ہوا کہ وہ اپنے تیار کردہ سیٹلائٹ کو مدار میں پہنچا سکتا ہے۔ بعد میں مزید سیٹلائٹس بھی بنائے اور لانچ کیے گئے، اگرچہ ابتدائی تجربات کے دوران ان کی کارکردگی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی کیونکہ وہ تجرباتی مرحلے میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں فی الحال سیٹلائٹس زیادہ تر انفرادی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں، یعنی ایک وقت میں چند ہی تیار ہوتے ہیں۔ تاہم اب "منظومۂ شہید سلیمانی" منصوبے کے تحت ایک نئی سمت متعارف ہورہی ہے جس میں متعدد سیٹلائٹس کی تیاری کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔

سالاریہ نے کہا کہ بعض لوگ ایران کے منصوبوں کا موازنہ امریکی اسٹارلِنک جیسے پروگراموں سے کرتے ہیں، جہاں دو یا تین ماہ میں 30 یا اس سے زیادہ سیٹلائٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دنیا کی سب سے جدید نجی خلائی کمپنی ہے، جبکہ ایران ابھی تحقیق و ترقی سے صنعتی پیداوار کے ابتدائی مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

News ID 1935833

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha