مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی ہمدردی (OCHA) نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے غزہ شہر میں شدید فضائی حملوں کی لہر دیکھی گئی۔ اس دوران صہیونی رژیم نے مہاجر کیمپوں، رہائشی علاقوں اور عام شہری سہولیات کو بھی نشانہ بنایا، جس سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زمینی کارروائیوں، بمباری اور بار بار خالی کروانے کے لئے کی جانے والی ہدایات کے نتیجے میں غزہ سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ایک اور لہر پیدا ہوئی ہے۔ شمالی غزہ میں مواصلاتی نظام میں خلل کی وجہ سے انسانی امداد کی معلومات کی تصدیق اور غیرملکی شہریوں کی صورتحال کا جائزہ لینا مشکل ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے بھی رپورٹ دی ہے کہ کم از کم ۲۳۴۰ افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں، مئی کے آخر سے انسانی امداد وصول کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
او سی ایج اے نے امدادی سامان کی شدید کمی کی طرف بھی توجہ دلائی اور بتایا کہ ۱۲ ستمبر سے شمالی غزہ میں زیکیم گذرگاہ بند ہے، اردن سے اشیاء کی آمد معطل ہے اور ۲۳ اور ۲۴ ستمبر کو یہ گذرگاہیں یہودی تعطیلات کی وجہ سے بند رہیں، جس سے امدادی سلسلے کی پیش گوئی ناممکن ہو گئی ہے، خاص طور پر غزہ شہر میں جہاں قحط کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مسلسل بمباری، جبری خالی کروانے اور ضروری اشیاء کی کمی کی وجہ سے بنیادی خدمات جیسے ایمبولینس، ہسپتال، غذائی خدمات اور عوامی کچن شدید خطرے میں ہیں۔ OCHA نے بتایا کہ اس ماہ کے آغاز سے شمالی غزہ کے چار ہسپتال بند ہو چکے ہیں اور پورے غزہ میں صرف ۱۴ ہسپتال کام کر رہے ہیں، جو اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ فعال نہیں ہیں۔
رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ بار بار بے گھر ہونے کی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد، خاص طور پر بچے اور بزرگ، شدید دباؤ میں ہیں اور پانی کی کمی کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
غزہ کے جنوبی حصے میں پناہ گزینوں کے حالات بھی شدید بتائے گئے ہیں، جہاں خاندان عارضی خیموں، بھری ہوئی اسکولوں یا تباہ شدہ مکانات کے درمیان رہائش پذیر ہیں۔ کئی مہاجرین بغیر خیمے کے پہنچتے ہیں اور مارکیٹ میں ایک خیمے کی قیمت تقریباً ہزار ڈالر ہے، جو بیشتر خاندانوں کی استطاعت سے باہر ہے۔
آپ کا تبصرہ