مہر خبررساں ایجنسی کی خصوصی رپورٹ: ایران میں ہر سال 8 اگست کو یوم صحافت کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ملک کے صحافیوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے اور خاص طور پر وہ صحافی یاد کیے جائیں جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر حق اور سچائی کی راہ میں قربانی دی۔ شہید محمود صارمی کی یاد میں اس دن کو یوم صحافت قرار دیا گیا جنہوں نے صحافت کے شعبے میں نہایت شجاعت، دیانت اور پیشہ ورانہ جذبے سے کام کیا۔
محمود صارمی جون 1968 میں بروجرد میں پیدا ہوئے۔ وہ 1996 سے افغانستان میں ایرانی خبر رساں ادارے ایرنا کے دفتر کے سربراہ تھے اور ایک ایسے خطے سے خبریں فراہم کر رہے تھے جہاں سخت سیاسی اور عسکری کشیدگی جاری تھی۔ صارمی نے طالبان کے مظالم اور ان کے افغانستان پر قبضے کے دوران بھی نہ صرف خطرات سے کھیل کر رپورٹنگ کی بلکہ سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔
امریکہ اور کئی مغربی طاقتوں کی حمایت کے تحت طالبان نے افغانستان میں اپنی گرفت مضبوط کی، اور اس دوران شہید صارمی نے حالات کی درست اور شفاف رپورٹنگ کی۔ انہوں نے اپنی رپورٹنگ کے ذریعے دنیا کو طالبان کی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی، چاہے اس میں اپنی جان کا کتنا ہی بڑا خطرہ ہو۔
8 اگست 1998 کو مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے دوران صارمی نے اپنا آخری پیغام ایرنا کو بھیجا، جس میں انہوں نے بتایا کہ طالبان نے مزار شریف پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ ایرانی قونصل خانے کے قریب ہیں۔ صارمی نے آخری مرتبہ کہا: "آج 8 اگست 1998 ہے۔ میرا نام محمود صارمی ہے۔ میں ایرنا کا نمائندہ ہوں۔ طالبان نے مزار شریف پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ ایرانی قونصل خانے کے قریب ہیں۔ مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں…"۔
یہ الفاظ ان کی حتمی آواز بنے اور اس کے بعد ان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔
صارمی کی شہادت محض ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک صحافی کی غیر متزلزل ہمت اور سچائی کے لیے لازوال جذبے کی علامت ہے۔ انہوں نے خطرات کے باوجود صحافت کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کی راہ میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ ان کا یہ جذبہ ایرانی صحافت کی اس غیر متزلزل روح کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیا کے خطرناک ترین اور مشکل ترین حالات میں بھی حق و سچائی کے لیے لڑتی ہے۔
ایران میں یوم صحافت کی تقریبات میں نہ صرف شہید صارمی بلکہ دیگر تمام شہید صحافیوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، جنہوں نے آزادی بیان، انصاف اور حق گوئی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ یہ دن صحافت کی اہمیت، صحافیوں کی اخلاقی ذمہ داریوں، اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے دی جانے والی قربانیوں پر غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔
صحافت کا شعبہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں طاقتور عناصر حقائق کو چھپانے کے لیے سازشیں کرتے ہیں، اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ ایسے میں صحافیوں کی ہمت، اخلاقی جرات اور مستقل مزاجی ہی معاشرے کو سچائی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
شہید صارمی کی قربانی ان تمام صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہے جو ہر دن اور ہر لمحے خطرات کے باوجود حق گوئی کے عزم پر قائم رہتے ہیں۔ ایران بھر میں منعقدہ تقریبات میں شہید صارمی کی قربانی اور جذبے کو یاد کیا جاتا ہے اور صحافیوں میں پیشہ ورانہ دیانت داری اور سچائی کی پاسداری کا جذبہ بیدار کیا جاتا ہے۔
یومِ صحافت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزاد، غیر جانبدار اور دیانت دار صحافت ایک جمہوری معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ صحافیوں کی قربانیاں شفافیت، جوابدہی اور انصاف کے قیام کے لیے لازمی ہیں۔ یہ دن عوام، حکومتوں اور میڈیا اداروں کو ایک ذمہ داری کا بھی احساس دلاتا ہے کہ وہ آزادی بیان اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں تاکہ سچائی کی آواز ہمیشہ بلند رہ سکے۔
آپ کا تبصرہ