17 جون، 2025، 10:37 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

بچوں کا قتل عام، صہیونیوں کی فطری پستی کا بیّن ثبوت ہے!

بچوں کا قتل عام، صہیونیوں کی فطری پستی کا بیّن ثبوت ہے!

صہیونی ریاست کے مجرمانہ حملے میں معصوم بچے اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہوگئے۔ ان ننھے فرشتوں کی شہادت اس ظالم اور خبیث ریاست کے جاری اور منظم بچوں کے قتل عام کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی:  ایک غم بھری داستان چھوٹے چھوٹے ہاتھ جو ابھی کاپی پنسل کی خوشبو سے آشنا نہ ہوئے تھے، مٹی اور لوہے کے ڈھیر تلے دفن ہو گئے۔ وہ انگلیاں جو کل رنگین پنسل سے سورج  کی تصویر بنانا چاہتی تھیں، ہمیشہ کے لیے بے جان ہو گئیں۔ وہ آنکھیں جو چھوٹی چھوٹی کلاسوں میں بڑے خواب بُننا چاہتی تھیں، اندھیوں کی نذر ہوگئیں۔

ان گھروں میں جہاں تازہ روٹی کی خوشبو ہوتی تھی، بچوں کی قہقہے گونجتے تھے، دیواروں پر اب بھی تصویریں لٹک رہی تھیں، سوال یہ ہے کہ وہ کس جرم میں قتل کر دیے گئے؟ کس جرم میں دھماکوں سے ان کی نیندیںحرام کردی گئیں؟ وہ کون سا جرم تھا کہ ان کے جھولے خاک کا ڈھیر بن گئے؟ یہ کیسی ننگ  و بے شرم بربریت ہے؟ انسانیت کا ضمیر کہاں چھپ گیا ہے جو ان بچوں کی چیخیں نہیں سن پاتا ہے؟

زہرا، جو ابھی ایک سال کی بھی نہیں ہوئی تھی، چلنا بھی نہ سیکھ پائی تھی کہ زندگی بھی چھین لی گئی۔ فاطمہ، پانچ سالہ بچی جو لکھنا بھی نہ جانتی تھی، اب اس کا نام خون سے لکھا جا رہا ہے۔ تارا، جس کے دل میں ہزار خواب تھے، سب دھماکے میں راکھ ہو گئے۔ امیرعلی، جو ایک دن اولمپک کا ہیرو بننا چاہتا تھا، اب صرف تصویر کے فریم میں نظر آتا ہے۔ رایان، دو سالہ بچہ جو ماں کا ہاتھ تھامنا سیکھ رہا تھا، اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا ہے۔ یہ سب فوجی نہیں تھے، یہ صرف بچے تھے — معصوم، زندگی سے بھرپور، ہنستے مسکراتے بچے — اور اب خاک کی آغوش میں ہیں۔

صہیونی ریاست نے ایک بار پھر اپنی وہی جھوٹی بات دہرائی کہ "ہم عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ مگر انہی کے میزائلوں نے گھر تباہ کیے، بچوں کے کمروں کو، جن کی دیواروں پر معصوم تصویریں تھیں، ملبے میں بدل دیا۔ آدھی بنی تصویریں تو رہ گئیں، مگر وہ بچہ نہ رہا جو آسمان یا آزاد پرندہ  کی تصویر مکمل کر سکے۔

بچوں کا قتل عام، صہیونیوں کی فطری پستی کا بیّن ثبوت ہے!

دیوار کے اس طرف وہ لاشیں گریں جن کے پاس نہ کوئی ہتھیار تھا نہ مورچہ — صرف خواب تھے، سادہ خواب کھیلنے کے، ماں کی گود کے، ایک آنے والے کل کے جو کبھی آیا ہی نہیں۔ کون ہے جو پانچ سالہ بچی کے ہاتھ سے چھنی ہوئی گڑیا کا جواب دے؟ کون دے گا جواب ان ماؤں کے آنسوؤں کا جن کے بچوں کے کمروں سے اب کوئی آواز نہیں آتی؟

یہاں ایران ہے؛ یہاں ایک قوم کا دل ان بچوں کے لیے دھڑکتا ہے جو صرف اس لیے مار دیے گئے کہ وہ بچے تھے۔

ایرانی قوم  صرف غمزدہ ہی  نہیں، بلکہ انصاف کی طلبگار ہے۔ ان کی آنکھوں کے آنسو  شجر بیداری کے لیے آب  حیات ہیں، ان کا غصہ، اس جھوٹے اور قابض ریاست کے فریبکارانہ اقدامات  کے لیے آتش فشاں  ہے، جس نے دنیا کے ضمیر کو برسوں سے سلا رکھا ہے۔ ان معصوم فرشتوں کا خون نہ صرف ان  تباہ کن جرائم کی سندہے، بلکہ ایک آئینہ ہے جو ان کی بے نقاب حقیقت کو دنیا کے سامنے دکھا دیتا  ہے۔

یہ الفاظ، جو ہمارے دکھے دلوں سے نکلتے ہیں، صرف نوحہ نہیں؛ یہ فریاد ہے؛ وہ فریاد جو خاموشی کی دیواریں چیرتی ہے اور تاریخ کے سینے میں گونجتی ہے۔ ان بے گناہ بچوں کے نام ہمیشہ کے لیے انسانی یادداشت میں چمکتے ستاروں کی مانند رہیں گے، اور ان کے قاتل، جو ان معصوم جانوں کے خون میں ہاتھ رنگے بیٹھے ہیں، تاریخ کے تاریک اور شرمناک ترین صفحات میں دفن ہو جائیں گے۔

News ID 1933625

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha