مہر خبررساں ایجنسی نے قومی آواز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ وہ وقف (ترمیمی) بل 2024 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر جے رام رمیش نے کہا کہ اس بل کے علاوہ سی اے اے 2019، آر ٹی آئی قانون میں 2019 میں کی گئی ترمیم، انتخابات کے ضوابط 2024 میں ترامیم اور عبادت گاہوں کے قانون 1991 سے متعلق مسائل پر بھی پارٹی عدالت سے رجوع کر چکی ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ’’انتخابات کے ضوابط (2024) میں ترامیم کی قانونی حیثیت کو لے کر کانگریس کی جانب سے دی گئی چیلنج پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کی اصل روح کو برقرار رکھنے کے لیے کانگریس کی مداخلت پر بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے بل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "وقف بورڈ ترمیمی بل کو لے کر ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ یہ اقلیتی برادریوں کو تنگ کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "لوک سبھا میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو اس کے حق میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ پڑے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بل میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔ اس کے باوجود اسے منظوری دی گئی، جو حکومت کی من مانی کو ظاہر کرتا ہے۔
یاد رہے بھارتی پارلیمنٹ میں شدید بحث کے بعد یہ بل پہلے لوک سبھا اور پھر راجیہ سبھا میں بھی منظور کرلیا گیا۔ لوک سبھا میں اس کے حق میں 288 جبکہ مخالفت میں 232 ووٹ آئے، جبکہ راجیہ سبھا میں 128 ارکان نے اس کے حق میں اور 95 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
ادھر، آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایس پی ایل بی) کے جنرل سیکریٹری مولانا یاسوب عباس نے کہا کہ "یہ افسوسناک ہے کہ جنتا دل (یونائیٹڈ) اور تیلگو دیشم پارٹی جیسی جماعتوں نے مسلم برادری کی حمایت نہیں کی۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے اور آئینی دائرے میں رہ کر احتجاج کریں گے۔
حکومت کے مطابق، وقف (ترمیمی) بل 2024 کا مقصد وقف جائیدادوں کے انتظام کو مزید شفاف بنانا اور بدعنوانیوں کا خاتمہ ہے۔ تاہم، کانگریس سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اسے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وقف سے متعلق قوانین کو عدالت میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا جاتا ہے تو اس کا فیصلہ مستقبل میں اقلیتوں کی جائیدادوں کے تحفظ پر دور رس اثرات ڈال سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ