مہر خبررساں ایجنسی نے قومی آواز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ راجیہ سبھا میں وقف بل پر اپنی بات رکھتے ہوئے عآپ رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے کہا کہ ’’حکومت لوگوں کی مائی باپ ہوتی ہے۔ والدین کی طرح لوگوں کا خیال رکھتی ہے، لیکن یہ حکومت لوگوں (مسلمانوں) کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ غیر آئینی بل ہے۔ یہ حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ یہ قانون مسلمانوں کے بھلے کے لیے لا رہی ہے، لیکن آپ کی طرف سے یہ کہنا زیب نہیں دیتا۔ ایسا اس لیے کیونکہ پوری حکومت میں ایک بھی مسلمان وزیر نہیں ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کا بھلا کر رہے ہیں۔
حکومت کی منشا ٹھیک نہیں: تروچی شیوا
ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ تروچی شیوا نے راجیہ سبھا میں وقف ترمیمی بل پر بحث کے دوران سردار پٹیل کا قول پیش کرتے ہوئے کہا کہ سبھی طبقات ملک کے لیے اہم ہیں، اور برابر ہیں۔ جو بل پیش کیا گیا ہے، اس سے حکومت کی منشا ٹھیک ظاہر نہیں ہو رہی۔ آج مسلم سماج کے ساتھ یہ کر رہے ہیں، کل عیسائی اور دوسرے طبقات کی باری آئے گی۔
ہم ٹرین میں نماز پڑھتے ہیں، تو کیا ٹرین ہماری ہو گئی؟‘ ناصر حسین نے حکومت پر گمراہی پھیلانے کا لگایا الزام
وقف ترمیمی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس رکن پارلیمنٹ ناصر حسین نے کہا کہ ’’وقف کے معنی عطیہ کرنا ہے، جو کوئی بھی کسی کو بھی کر سکتا ہے۔ حضرت محمد (ص) کے زمانے میں غیر مسلمانوں نے بھی عطیات کیے۔ عطیہ کی روایت ہر مذہب میں ہے۔ ہمارے یہاں عطیہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وقف بورڈ بنا۔ اس ملک میں ایس جی پی سی ہے، ٹیمپل ٹرسٹ ہیں، آخر یہ (بی جے پی والے) گمراہی کیوں پھیلا رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ انگریزوں کے زمانے میں وقف ایکٹ آیا تھا جس میں اصلاح کرنے کے لیے کئی ترامیم کی گئیں۔ کانگریس کے زمانے مین جو ترامیم ہوئیں، اس میں پورا تعاون اور سپورٹ دیگر پارٹیوں کی بھی تھی۔ وقف بورڈ کے خلاف سب سے بڑی گمراہی یہ پھیلائی گئی ہے کہ وقف بورڈ کسی بھی زمین کو اپنی زمین کہہ دیتا تھا۔ کیا ملک میں ریونیو ریکارڈ نہیں ہے، قانون نہیں ہے، عدالت نہیں ہے؟ ہم ٹرین میں نماز پڑھتے ہیں، تو کیا ٹرین ہماری ہو گئی؟ ناصر حسین نے کہا کہ وقف کو لے کر کیے جا رہے دعوے غلط ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آپ عدالت نہیں جا سکتے، لیکن آپ بالکل جا سکتے ہیں۔ ہائی کورٹ ہے، سپریم کورٹ ہے، آپ وہاں جا سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ